اشیائے صرف کی قیمت مقرر کرنا،نیز   ذخیرہ اندوزی اور تلقی جلب کا حکم

اشیائے صرف کی قیمت مقرر کرنا،نیز   ذخیرہ اندوزی اور تلقی جلب کا حکم

 سوال:

 کسی شے کو فروخت کرنے پر کتنا نفع لیا جاسکتا ہے، مثلاً ایک چیز نو روپے کی خریدی اسے بیس روپے میں فروخت کرنا کیسا ؟

جواب :

اسلام نے کاروبار میں نفع کی کوئی خاص شرح مقرر نہیں کی، کیونکہ جب تک رسد پر کنٹرول نہ ہو یا رسد حسب ضرورت نہ ہو تو یہ ناقابل عمل ہو جاتا ہے ۔ اصولی طور پر تجارت کا مقصد نفع حاصل کرنا ہی ہوتا ہے، لہذا فی نفسہ جائز طریقے سے نفع کمانا کوئی معیوب بات نہیں ہے، کیونکہ تجارت ذریعہ معاش بھی ہے، معاشرے کی ضرورت اور خدمت بھی ہے۔ تاجر ہی وہ فرد ہے جو صنعتکار، کاشتکار اور صارف کے درمیان رابطہ بنتا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے اور عام حالات میں کاروبار فطری تقاضوں کے مطابق چلتا رہے ،اس کے ساتھ ساتھ اسلام ہر طبقے کے مسلمانوں کی اخلاقی تربیت بھی کرتا ہے اور مذموم صفات مثلا حرص و ہوس، انسانوں کی اذیت رسانی اور مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والے عوامل کی روک تھام کرتا ہے، اسی طرح انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور ایثار کی تعلیم دیتا ہے۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ایسی تعلیمات فرمائیں جو مصنوعی طریقوں سے قیمتیں بڑھانے سے روکتی ہیں اور وہ یہ ہیں :

(الف) آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” الجالب مرزوق والمحتکر ملعون” تاجر صنعتکار ،اہل حرفت کاشتکار اور صارف کے درمیان واسطہ بنتا ہے اور اگر وہ اپنے منافع کو جائز حدود میں رکھتا ہے تو اسے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے بشارت دی ہے : "التاجر الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء”۔

 ذخیرہ اندوزی سے مراد یہ ہے کہ تاجر اشیائےضرورت کو بڑے پیمانے پر ذخیرہ کرے، اس کی رسد روک دے تاکہ طلب بڑھے اور پھر وہ مصنوعی طریقے سے من پسند قیمت وصول کرکے لوگوں کا استحصال کرے،  یہ سنگدلی، بے رحمی اور شقاوت ہے۔

(ب) رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلم نے تلقی الجلب سے منع فرمایا تھا، اس سے مراد یہ ہے کہ باہر سے اشیائے ضرورت فروخت کرنے کے لیے جو لوگ شہر میں لاتے ہیں، راستے میں ان سے کم دام میں خریدے اور پھر مارکیٹ میں زیادہ دام میں فروخت کرے،  اسے حدیث مبارک میں بیع الحاضر للبادی یعنی شہری کی دیہاتی کے لئے بیع سے بھی تعبیر فرمایا گیا ہے ۔ اس سے کاروبار کا فطری عمل متاثر ہوتا  ہے، جس کے نتیجے میں صارفین کا حق پامال ہوتا ہے،  لیکن موجودہ دور میں آڑھت یا کمیشن ایجنٹ کا ادارہ ناگزیر ہو گیا ہے اور حکومت کے لیے اسے کنٹرول کرنا یا ختم کرنا مشکل ہے کیونکہ دور دراز سے مال لے کر آنے والے صنعتکار یا کاشتکار کے لیے ممکن نہیں کہ اپنے مال کو شہر میں آکر اسٹاک کرے اور براہ راست صارفین کو بیچے بلکہ اب بہت سے تاجر دیہات میں جاکر باغات کو براہ راست خرید لیتے ہیں، اور کئی تاجر باغات کے قریب اپنے پروسیسنگ پلانٹ لگا لیتے ہیں اور زیادہ منافع کماتے ہیں۔ اسے آج کل کی معاشی اصطلاح میں ویلیو ایڈیشن (value addition)کہا جاتا ہے یعنی یہ کہ خام مال نہ بیچے کیونکہ اس کے دام کم ملیں گے بلکہ اسے پروسیس کر کے بیچے ،جیسے پھلوں کو صاف کر کے اور ان کی درجہ بندی کر کے خوبصورت پیکنگ کرنا تاکہ جب وہ صارف کے پاس پہنچے تو تیار ہو نہ کچا ہو اور نہ گلا سڑا ،اسی لیے آج کل عالمی مارکیٹوں میں اشیائے خوراک اور دواؤں کے پیکٹ پر استعمال کی انتہائی تاریخ لکھنا بھی ضروری ہے، اسی طرح روئی سے دھاگہ بنانا اور پھر دھاگے سے کپڑا بنانا اور پھر اسے مطلوبہ ڈیزائن میں پرنٹ کرکے پیک کرنا اسے آجکل ڈائنگ کہتے ہیں یہ بھی ویلیو ایڈیشن ہے۔

(ج) اسلام کی حکمت یہ ہے کہ معاشرے کو باہمی احترام اور ایک دوسرے کے لیے ایثار و اخلاص کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے ۔مدینہ منورہ میں جب قحط پڑا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا تمام مال صدقہ کر دیا۔

آج کل عہد رسالت مآب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ، عہد خلافت راشدہ اور قرون اولی کے مقابلے میں حکومتوں کے مالی وسائل اور ذمہ داریوں میں کافی اضافہ ہوگیا ہے اور حکومت پاکستان نے 1977ء میں Price Control and Prevention of Profiteering and Hoarding Act  یعنی قیمتوں پر کنٹرول اور نفع اندوزی و ذخیرہ اندوزی کی ممانعت کے عنوان سے ایک قانون بھی بنایا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد بھی قیمتوں کو مناسب حدود میں رکھنا ہے، اس میں بھی نفع کی کوئی خاص شرح مقرر نہیں کی گئی لیکن جب حکومت محسوس کرے کہ اشیائے ضرورت کی قیمتیں عوام کی قوت خرید سے باہر ہو رہی ہیں تو حکومت مداخلت کرتی ہے اور اس کی ممکنہ صورتیں یہ ہوتی ہیں :

( الف) یہ کہ صارفین کے لیے کم از کم خوردہ قیمت مقرر کرے ۔

(ب)  اپنے اسٹاک سے ان اشیا کی مارکیٹ میں رسد بڑھا دے ۔

( ج)  ہنگامی بنیادوں پر ان اشیاء کی درآمد کی اجازت دے اور درآمدی ڈیوٹی عارضی طور پر ختم کر دے یا کم کرے ۔

(د) ذخیرہ اندوزی کو کنٹرول کرے ۔

(ہ)  حکومت صارفین کے لیے زرتلافی دے۔

 پس موجودہ دور میں یہ عرف رائج ہے اور شرعی اعتبار سے بھی درست ہے، کیونکہ معاملات میں عرف بھی حاکم ہوتا ہے۔ پس ایسے حالات میں تسعیر درست ہے بشرطیکہ  حکومت یہ کام ذمے داری سے کرے تاکہ صنعتکار، تاجر اور صارف سب کے جائز مفادات کا تحفظ ہوسکے ۔

 آپ نے نو روپے کی چیز بیس روپے میں بیچنے کی بابت سوال کیا ہے، نفع کا یہ تناسب سو فیصد سے بھی زیادہ ہے اور کھلا استحصال ہے۔ ایسے رجحانات کو کنٹرول کرنا حکومت کی ذمے داری ہے ۔ سب کو معلوم ہے کہ جلد گلنے سڑنے والی تلف ہونے والی اشیاء ( جیسے سبزیاں اور پھل وغیرہ) کا نفع نسبتا زیادہ ہوتا ہے، لیکن اسے بھی ایک حد کے اندر رہنا چاہیے لیکن اس کے لئے کوئی مستقل ضابطہ مقرر کرنا مشکل ہے، جو دائمی طور پر قابل عمل ہو۔  یہ امور حالات اور اسباب پر منحصر ہوتے ہیں اور ان تمام عوامل پر نظر رکھنا حکومت کی ذمے داری ہے، اس لئے اب حکومتیں ضابطہ کار کا کردار ادا کرتی ہے۔

                                    (تفہیم المسائل، جلد 10، صفحہ 457، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)

Premium WordPress Themes Download
Download Premium WordPress Themes Free
Download Nulled WordPress Themes
Download WordPress Themes Free
free online course
download samsung firmware
Download Premium WordPress Themes Free
udemy paid course free download

Comments

Leave a Reply