استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ’’استلامُ الحجر ‘‘کسے کہتے ہیں اور ا س کی کیا کیفیت ہے ؟
(السائل : محمد عرفان المانی، کراچی)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : ’’ استلام‘‘ کسے کہتے ہیں ؟ استلام الحجر، حجرِ اسود کو بوسہ دینے یا چھونے کو کہتے ہیں ، چنانچہ امام نجم الملّۃِ و الدّین ابو حفص عمر بن محمد نسفی متوفی 537ھ لکھتے ہیں :
و استلام الحجر الأسود : لَمْسُہٗ بِفَمٍ أَوْ یَدٍ (326)
یعنی، اور استلام حجرِ اسود : اُسے منہ یا ہاتھ سے چھونا ہے ۔ اور ملا علی القاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
ثم یستلم الحجر (327)أی یلمسہ إمّا بالقُبلہ أو بالید علی ما فی ’’ القاموس‘‘ (328)
یعنی، پھر حجراسود کا استلام کرییعنی اُسے چُھوئے بوسے کے ساتھ یا ہاتھ کے ساتھ اس بنا پر جو ’’قاموس‘‘(329) میں ہے ۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : حجر اسود کو بوسہ دینے یا ہاتھ یا لکڑی سے چُھو کر چوم لینے کا اِشارہ کر کے ہاتھوں کو بوسہ دینے کو’’ استلام‘‘ کہتے ہیں ۔ (330) استلام کی کیفیت : استلام کی کیفیت کے بارے میں امام ابو منصور محمد بن مکرم کرمانی حنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :
و تفسیر الاستلام أن یضع کفّیہ علی الحجر و یقبّلہ إن أمکن من غیر إیذاء أحدٍ، فإن لم یمکنہ السجود یقتصر علی التقبیل، فإن یمکنہ ذلک من غیر ایذائٍ یستلمہ بیدہ، فإن لم یمکنہ ذلک من غیرإیذائٍ یشیر بکفّیہ نحو الحجر، کأنہ واضع علی الحجر مع التکبیر و التھلیل، ثم تقبّل کفّیہ (331)
یعنی، ’’استلام ‘‘کی تفسیر یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو کسی کو ایذاء دئیے بغیر اپنی دونوں ہتھیلیاں حجرِ اسود پر رکھے اور اُسے بوسہ دے ، پس اگرسجود ممکن نہ ہو تو صرف بوسہ پر اکتفاء کرے پھر اگر یہ بھی بغیر ایذا کے ممکن نہ ہو تو اپنے ہاتھ سے استلام کرے ، پھر اگر بغیر ایذاء کے یہ بھی ممکن نہ ہو تو اپنے دونوں ہاتھوں سے حجرِ اسود کی طرف تکبیر و تہلیل کہتے ہوئے اِشارہ کرے گویا کہ وہ حجرِ اسود پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے پھر اُن کو بوسہ دے ۔ اور امام حسن بن منصور اُوزجندی حنفی متوفی 592ھ لکھتے ہیں :
و یستلم الحجرو تفسیر ذلک أن یضع کفّیہ الحجر و یقبّل الحجر إن استطاع من غیر أن یؤذی أحداً لأن رسول اللہ ﷺ فعل ذلک، و الحکمۃ فی تقبیل الحجر ما روی عن علیّ رضی اللہ عنہ أنہ قال : لمّا أخذ اللہ المیثاق علی بن آدم من ذریّتہ کتب بذلک کتابًا فجعلہ فی جوف الحجر، فیجیٔ یوم القیامۃ، ’’وَ یَشْہَدُ لِمَنِ اسْتَلَمَہٗ‘‘ وإن لم یستطع استلام الحجر من غیر أن یؤذی أحداً لا یستلمہ، لکن یستقبل الحجر و یکبّر و یشیر بکفّیہ نحو الحجر و یکبّر و یہلّل و یحمد اللہ تعالیٰ و یصلّی علی النبی ﷺ، ثم یقبّل کفّیہ (332)
یعنی،’’ استلام حجر ‘‘تو اُس کی تفسیر یہ ہے کہ اپنے دونوں ہاتھ حجرِ اسود پر رکھے اور کسی کو ایذاء پہنچائے بغیر حجرِ اسود کو بوسہ دے ، اگر استطاعت رکھتا ہو کیونکہ رسول اللہ ا نے ایسا کیا اور حجرِ اسود کو بوسہ دینے کی حکمت وہ ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا : ’’جب اللہ تعالیٰ نے اولادِ آدم سے پختہ عہد لیا تو اُسے لکھا اور حجرِ اسود کے درمیان رکھ دیا تو حجرِ اسود قیامت میں آئے گا ہر اُس شخص کی گواہی دے گا جس نے اُس کا استلام کیا ہو گا ‘‘۔اور اگر کسی کو ایذاء پہنچائے بغیر استلام حجر کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو استلام نہ کرے لیکن حجرِ اسود کی طرف منہ کرے او راپنی ہتھیلیوں سے حجرِ اسود کی طرف اشارہ کرے او رتکبیر و تہلیل کرے ، اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرے ، نبی ا پر درود پڑھے پھر اپنی ہتھیلیوں کو چُوم لے ۔ اور علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبداللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
و صفۃ الاستلام یضع کفّیہ علی الحجر و یضع فمہ بین کفیہ و یقبّلہ بغیر صوتٍ إن تیسّر و إلاّ یمسحہ بالکفّ و یقبّلہ و یستحب أن یسجد علیہ (أی یضع وجہہ أو جبینہ علی ہیئۃ السجود) و یکررّہ مع التقبیل ثلاثًا، و إن لم یتیسّر ذلک لمس الحجر شیئاً (أی من عصاً و نحوہا) و قبّل ذلک الشیٔ إن أمکنہ و إلاّ یقف بحیالہ مستقبلاً لہ رافعاً یدیہ مشیراً بہما إلیہ کأنہ واضع یدیہ علیہ و قبّل کفیہ بعد الإشارۃ، صرّح بہ الحدادی (333)
یعنی ، استلام کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اگر میسر ہو تو حجرِ اسود پر دونوں ہتھیلیاں رکھے اور اُن کے مابین اپنا منہ رکھے اور حجرِ اسود کو بغیر آواز کے بوسہ دے ورنہ حجرِ اسود کو ہاتھ سے چُھو کر چوم لے اور مستحب ہے کہ اُس پر جھکے (یعنی اپناچہرہ یا پیشانی اس پر سجدے کی ہیئت میں رکھے ) اور اِسے تین بار کرے اور اگر یہ میسرنہ ہو اور ممکن ہو تو چھڑی وغیرہا سے حجرِ اسود کو چُھو کر اُسے چُوم لے ورنہ حجرِ اسود کی جانب منہ کر کے کھڑا ہو اور اپنے دونوں ہاتھوں کو حجرِ اسود کی جانب اِشارہ کرتے ہوئے بلند کرے گویا کہ اپنے ہاتھ حجرِ اسود پر رکھ رہا ہے اور اِشارے کے بعد اُن کو چُوم لے حدادی نے (سراج الوہاج میں )اِس کی تصریح کی ہے ۔ اور علامہ نظام الدین حنفی متوفی 1161ھ لکھتے ہیں :
صفۃ الإستلام أن یضع کفّیہ علی الحجر و یقبّلہ ذلک إن أمکنہ من غیر أن یؤذی أحداً کذا فی ’’المحیط‘‘
یعنی،’’ استلام ‘‘کی کیفیت یہ ہے کہ اپنی دونوں ہتھیلیاں حجرِ اسود پر رکھے اور بوسہ دے ، اگر کسی کو ایذاء دئیے بغیر ممکن ہو ، اسی طرح ’’محیط‘‘(334) میں ہے ۔
و إلاّ مسّ الحجر بیدہ و قبّل یدہ و إن لم یستطع ذلک أمس الحجر شیئًا فی یدہ من عرجون و غیرہ ثم قبّل ذلک الشیٔ کذا فی ’’الکافی‘‘
یعنی، ورنہ حجرِ اسود کو ہاتھ سے چُھو کر اُسے بوسہ دے اور اگر اِس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنے ہاتھ میں موجود لکڑی وغیرہ سے اُسے چُھوئے ، پھر اس کو بوسہ دے ۔ اسی طرح ’’کافی نسفی‘‘(335) میں ہے ۔ لکھتے ہیں :
فإن لم یستطع شیئًا من ذلک یستقبلہ و یرفع یدیہ مستقبلاً بباطنہما إیّاہ و یکبّر و یحمد و یصلّی علی النّبی ﷺ کما فی ’’فتح القدیر ‘‘ (336)
یعنی، پھر ان میں سے کسی کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو حجرِ اسود کی طرف رُخ کرے اور دونوں ہاتھ اس طرح اُٹھائے کہ ان کی ہتھیلیاں حجرِ اسود کی جانب ہو جائیں تکبیر، تہلیل اور تحمید کہے او رنبی ا پر درود پڑھے ۔ اس طرح ’’فتح القدیر ‘‘(337) میں ہے ۔ اور اشارے سے استلام کرنے میں ہاتھ کہاں تک اُٹھائے اس کی تصریح نظر سے نہیں گزری البتہ اپنے دونوں ہاتھوں سے حجرِ اسود کی جانب اس طرح اشارہ کرنے کا حکم ہے گویا اس پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہاں ہاتھ اُٹھانے سے مقصود اشارہ کرنا ہے تو ہاتھ حجرِ اسود کے برابر سینے یا کندھوں تک اُٹھیں گے اور وہ تکبیر جس کے ساتھ رفع یدین کا حکم ہے اور وہ استلام الحجر سے قبل ہے اس میں کانوں تک ہاتھ اُٹھانے کا حکم اور استلام الحجر حجرِ اسود کو بوسہ دینے کا نام ہے جو کہ نیت ِ طواف اور تکبیر مع رفع یدین کے بعد ہے اوراس کے بعد پھیرے میں اور طواف کے اختتام پر مسنون ہے ، پھر بوسہ نہ دے سکنے اور اس کے بعد ذکر کی گئی کیفیتوں پر قدرت نہ پانے کی صورت میں ہاتھوں سے اشارہ کر کے انہیں چُومنے کا حکم ہے ۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم السبت، 26شوال المکرم 1427ھ، 19نوفمبر 2006 م (252-F)
حوالہ جات
326۔ طلبۃ الطلبۃ فی إصلاحات الفقھیۃ، کتاب المناسک، ص59
327۔ لباب المناسک، باب دخول مکۃ، فصل فی صفۃ الشروع فی الطواف إلخ، ص104
328۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب دخول مکۃ، فصل فی صفۃ الشروع فی الطواف إلخ، ص184۔
329۔ القاموس المحیط، باب المیم، فصل السین، 2/1478، وفیہ وإستلم الحجر : خمسہ إما بالقبلۃ أو بالید
330۔ بہارِشریعت، حج کابیان، طواف کا طریقہ اور دعائیں ، 1/1596
331۔ المسالک فی المناسک، القسم الثانی : فی بیان نسک الحج…إلخ، 1/385۔386
332۔ فتاویٰ قاضیخان علی ھامش الفتاوی الھندیۃ، کتاب الحج، فصل فی کیفیۃ اداء الحج، 1/292
333۔ لباب المناسک، فصل فی صفۃ الشروع فی الطواف، ص154334۔ المحیط، کتاب المناسک، الفصل الثالث : تعلیم أعمال الحج، 3/399
335۔ الکافی فی شرح الوافی للنسفی، کتاب الحج، 1/450، مصوّر مخطوط
336۔ الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب المناسک، الباب الخامس، فی کیفیۃ أداء ، 1/225
337۔ فتح القدیر، کتاب الحج، باب الإحرام، 2/355