بہار شریعت

استثنا اور اسکے متعلقات کے متعلق مسائل

استثنا اور اسکے متعلقات کے متعلق مسائل

استثنا کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ متثنی کے نکالنے کے بعد جو کچھ باقی بچتا ہے وہ کہا گیا مثلاً یہ کہا کہ فلاں کے میرے ذمہ دس روپے ہیں مگر تین اسکا حاصل یہ ہوا کہ سات روپے ہیں ۔

مسئلہ ۱ : استثنا میں شرط یہ ہے کہ کلام سابق کے ساتھ متصل ہو یعنی بلا ضرورت بیچ میں فاصلہ نہ ہو اور ضرورت کی وجہ سے فاصلہ ہو جائے اس کا اعتبار نہیں مثلاً سانس ٹوٹ گئی کھانسی آگئی کسی نے منہ بند کر دیا۔ بیچ میں ندا کا آجانا بھی فاصل نہیں قرار دیا جائے گا مثلاً میرے ذمہ ایک ہزار ہیں اے فلاں مگر دس یہ استثنا صحیح ہے جبکہ مقرلہ منادی ہو اور اگر یہ کہا کہ میرے ذمہ فلاں کے دس روپے ہیں تم گواہ رہنا مگر تین یہ استثنا صحیح نہیں کل دینے ہوں گے۔ (درمختار ، عالمگیری)

مسئلہ ۲ : جو کچھ اقرار کیا ہے اس میں سے بعض کا استثنا صحیح ہے اگرچہ نصف سے زیادہ کا استثنا ہو اور اس کے نکالنے کے بعد جو کچھ باقی بچے وہ دینا لازم ہو گا اگرچہ یہ استثنا ایسی چیز میں ہو جو قابل تقسیم نہ ہو جیسے غلام جانور کہ اس میں سے بھی نصف یا کم و بیش کا استثنا صحیح ہے مثلاً ایک تہائی کا استثنأ کیا دو تہائیاں لازم ہیں اور دو تہائی کا استثناکیا ایک تہائی لازم ہے۔ (درمختار)

مسئلہ ۳ : استثنا ٔمستغرق کہ اس کو نکالنے کے بعد کچھ نہ بچے باطل ہے اگرچہ یہ استثنا ایسی چیز میں ہو جس میں رجوع کا اختیار ہوتا ہے جیسے وصیت کہ اس میں اگرچہ رجوع کر سکتا ہے مگر اس طرح استثنا جس سے کچھ باقی نہ بچے باطل ہے اور پہلے کلام کا جو حکم تھا وہی ثابت رہے گا۔ استثنأمستغرق اس وقت باطل ہے کہ اسی لفظ سے استثنا ہو یا اس کے مساوی ہے اور اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوں یعنی لفظ کے اعتبار سے استغراق نہیں ہے اگرچہ واقع میں استغراق ہے تو استثنا باطل نہیں بلکہ مثلاً یہ کہا کہ میرے مال کی تہائی زیدکے لئے ہے مگر ایک ہزار حالانکہ کل تہائی ایک ہی ہزار ہے یہ استثنا صحیح ہے اور زید کسی چیز کا مستحق نہیں ہو گا۔ (درمختار)

مسئلہ ۴ : یہ کہا کہ جتنے روپے اس تھیلی میں ہیں وہ فلاں کے ہیں مگرایک ہزار کہ یہ میرے ہیں اگر اس میں ایک ہزار سے زیادہ ہوں تو ایک ہزار اس کے اور باقی مقرلہ کے اور اگر اس میں ایک ہزار ہی ہیں یا ہزار سے بھی کم ہیں تو جو کچھ ہیں مقرلہ کو دیئے جائیں گے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۵ : کیلی اور وزنی اور عددی غیر متفاوت کا روپے اشرفی سے استثنا کرنا صحیح ہے اور قیمت کے لحاظ سے استثنا ہو گا مثلاً کہا زید کا میرے ذمہ ایک روپیہ ہے مگر چار پیسے یا ایک اشرفی ہے مگر ایک روپیہ اس صورت میں اگر قیمت کے اعتبار سے برابری ہو جائے جب بھی استثنا صحیح ہے اور کچھ لازم نہ ہو گا اگر ان کے علاوہ دوسری چیزوں کا روپے اشرفی سے استثنا کیا تو وہ صحیح ہی نہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ ۶ : استثنا میں دو عدد ہوں اور ان کے درمیان حرف شک ہو تو جس کی مقدار کم ہو اسی کو نکالا جائے مثلاً فلاں شخص کے میرے ذمہ ایک ہزار ہیں مگر سو یا پچاس تو ساڑھے نو سو کا اقرار پائے گا۔ اگر مستثنی مجہول ہو یعنی اس کی مقدار معلوم نہ ہو تو نصف سے زیادہ ثابت کیا جائے گا مثلاً میرے ذمہ اس کے سو روپے ہیں مگر کچھ کم یہ اکاون روپے کا اقرار ہو گا۔ (بحر)

مسئلہ ۷ : دو قسم کے مال کا اقرار کیا اور ان دونوں اقراروں کے بعد استثنا کیا اور یہ نہیں بیان کیا کہ مال اول سے استثنا ہے یا ثانی سے اگر دونوں مالوں کا مقرلہ ایک شخص ہے اور مستثنی مال اول کی جنس سے ہے تو مال اول سے استثنا قرار پائے گا مثلاً میرے ذمہ زید کے سو روپے ہیں اور ایک اشرفی مگر ایک رویپہ تو نناوے روپے اور ایک اشرفی لازم ہو گئی اور اگر مقرلہ دو شخص ہیں تو استثنا کا تعلق مال ثانی سے ہو گا اگرچہ مستثنی مال اول کی جنس سے ہو مثلاً یہ کہا کہ میرے ذمہ زید کے سو روپے ہیں اور عمرو کی ایک اشرفی ہے مگر ایک روپیہ تو عمرو کی اشرفی میں سے ایک روپیہ کا استثنا قرار پائے گا۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۸ : یہ کہا کہ فلاں شخص کے میرے ذمہ ہزار روپے ہیں اور سو اشرفیاں مگر ایک سو روپے اور دس اشرفیاں تو نو سو روپے اور نوے اشرفیاں لازم ہیں ۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۹ : استثنا کے بعد استثنا ہو تو استثنا اول نفی ہے اور استثنا دوم اثبات مثلاً یہ کہا کہ فلاں کے ذمہ میرے دس روپے ہیں مگر نو مگر آٹھ تو نو روپے لازم ہوں گے اور اگر کہا کہ دس روپے ہیں مگر تین مگر ایک تو آٹھ لازم ہوں گے اور اگر کہا کہ دس ہیں مگر سات مگر پانچ مگر تین مگر ایک تو آخر والے کو اس کے پہلے والے عدد سے نکالو پھر ما بقی کو اس کے پہلے والے سے وعلی ہذا القیاس یعنی تین میں سے ایک نکالا دور ہے پھر دو کو پانچ سے نکالا تین رہے پھر تین کو سات سے نکالا چار رہے اور چار کو دس سے نکالا چھ باقی رہے لہذا چھ کا اقرار ہوا اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ پہلا عدد دہنی طرف رکھو دوسرا بائیں طرف پھر تیسرا دہنی طرف اور چوتھا بائیں طرف وعلی ہذ القیاس اور دونوں طرف کے عدد کو رجوع کر لو بائیں طرف کے مجموعہ کو دہنی طرف کے مجموعہ سے خارج کرو جو کچھ باقی رہا اور اس کا اقرار ہے مثلاً صورت مذکورہ میں یوں کریں ۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۱۰ : دو استثنا جمع ہوں اور استثنا دوم مستغرق ہو تو پہلا صحیح ہے اور دوسرا باطل مثلاً یہ کہا کہ اس کے مجھ پر دس روپے ہیں مگر پانچ مگر دس تو پانچ کا دینا لازم ہے اور اگر پہلا مستغرق ہے دوسرا نہیں مثلاً میرے ذمہ دس ہیں مگر دس مگر پانچ تو دونوں صحیح ہیں یعنی پانچ کو دس سے نکالا پھر پانچ بچے پھر پانچ کو دس سے نکالا پانچ رہے بس پانچ کا اقرار ہوا۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۱۱ : اقرار کے ساتھ انشاء اللہ کہہ دینے سے اقرار باطل ہو جائے گا۔ یونہی کسی کے چاہنے پر اقرار کو معلق کیا مثلاً میرے ذمہ یہ ہے اگر فلاں چاہے اگرچہ یہ شخص کہتا ہو کہ میں چاہتا ہوں مجھے منظور ہے۔ یونہی کسی ایسی شرط پر معلق کرنا جس کے ہونے نہ ہونے دونوں باتوں کا احتمال ہو اقرار کو باطل کر دیتا ہے یعنی اگر وہ شرط پائی جائے جب بھی اقرار لازم نہ ہو گا۔ اور اگر ایسی شرط پر معلق کیا جو لا محالہ ہو ہی گی جیسے اگر میں مر جائوں تو فلاں کامیرے ذمہ ہزار روپیہ ہے ایسی شرط سے اقرار باطل نہیں ہوتا بلکہ تعلیق ہی باطل ہے اور اقرار منجز ہے وہ شرط پائی جائے یا نہ پائی جائے یعنی ابھی وہ چیز لازم ہے اور اگر شرط میں میعاد کا ذکر ہو مثلاً جب فلاں مہینہ شروع ہو گا تومیرے ذمہ فلاں شخص کے اتنے روپے لازم ہوں گے اس صورت میں بھی فوراً لازم ہے اور میعاد کے متعلق مقرلہ کو حلف دیا جائے گا۔ (درمختار ، بحر)

مسئلہ ۱۲ : فلاں شخص کے میرے ذمہ ہزار روپے ہیں اگر وہ قسم کھائے یا بشرطیکہ وہ قسم کھا لے اس نے قسم کھا لی مگر مقر انکار کرتا ہے تو اس مال کا مطالبہ نہیں ہو گا۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۱۳ : مقر نے دعوی کیا کہ میں نے اقرار کو معلق بالشرط کیا تھا یعنی اس کے ساتھ انشاء اللہ تعالی کہہ دیا تھا لہذا مجھ پر کچھ لازم نہیں میرا اقرار باطل ہے اگر یہ دعوی انکار کے بعد ہے یعنی مقرلہ نے اس پر دعوی کیا اور اس کا اقرار کرنا بیان کیا اس نے اپنے اقرار سے انکار کیا مدعی نے گواہوں سے اقرار کرنا ثابت کیا اب مقرنے یہ کہا تو بغیر گواہوں کے مقر کی بات نہیں مانی جائے گی اور اگر مقر نے شروع ہی سے یہ کہہ دیا کہ میں نے اقرار کیا تھا اور

اس کے ساتھ انشاء اللہ بھی کہہ دیا تھا تو اس کے کے قول کی تصدیق کی جائے گی۔ (درمختار ، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۴ : فلاں شخص کے میرے ذمہ ہزار روپے ہیں مگر یہ کہ مجھے اس کے سوا کچھ دوسری بات ظاہر ہو یا سمجھ میں آئے یہ اقرار باطل ہے۔ (شرنبلالی)

مسئلہ ۱۵ : پورے مکان کا اقرار کیا اس میں سے ایک کمرہ کا استثنا کیا یہ استثنا صحیح ہے۔ (درمختار)

مسئلہ ۱۶ : یہ انگوٹھی فلاں کی ہے مگر اس میں کا نگینہ میرا ہے یا یہ باغ فلاں کا ہے مگر یہ درخت اس میں میرا ہے یہ لونڈی فلاں کی مگر اس کے گلے کا یہ طوق میرا ہے ان سب صورتوں میں استثنا صحیح نہیں مقصد یہ ہے کہ توابع شے کا استثنا صحیح نہیں ہوتا۔ (درر ، غرر)

مسئلہ ۱۷ : میں نے فلاں سے ایک غلام خریدا جس پر ابھی قبضہ نہیں کیا ہے اس کا ثمن ایک ہزار میرے ذمہ ہے اگر معین غلام کو ذکر کیا ہے تو مقرلہ سے کہا جائے گا وہ غلام دے دو اور ہزار روپے لے لے ورنہ کچھ نہیں ملے گا۔ دوسری صورت یہاں یہ ہے کہ مقرلہ یہ کہتا ہے وہ غلام تمہارا ہی غلام ہے اسے میں نے کب بیچا ہے میں نے دوسرا غلام بیچا تھا جس پر قبضہ دیدیا اس صورت میں ہزار روپے جس کا اقرار کیا ہے دینے لازم ہیں کہ جس چیز کے معاوضہ میں اس نے دینا بتایا تھا جب اسے مل گئی تو روپے دینے ہی ہیں سبب کے اختلاف کی طرف توجہ نہیں ہو گی۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مقرلہ کہتا ہے یہ غلام میرا غلام ہے اسے میں نے تیرے ہاتھ بیچا ہی نہیں اس کا حکم یہ ہے کہ مقر پر کچھ لازم نہیں کیونکہ جس کے مقابل میں اقرار کیا تھا وہ چیز ہی نہیں ملی اور اگر مقرلہ اپنے اس جواب مذکور کے ساتھ اتنا اور اضافہ کر دے کہ میں نے تمہارے ہاتھ دوسرا غلام بیچا تھا اس کا حکم یہ ہے کہ مقر و مقرلہ دونوں پر حلف ہے کیونکہ دونوں مدعی ہیں اور دونوں منکر ہیں اگر دونوں قسم کھا جائیں مال باطل ہو جائے گا یعنی نہ اس کو کچھ دینا ہو گا اور نہ اس کو یہ تمام صورتیں معین غلام کی ہیں ۔ اور اگر مقر نے معین نہیں کیا بلکہ یہ کہتا ہے کہ میں نے ایک غلام تم سے خریدا تھا مقر پر ہزار روپے دینا لازم ہے اور اس کا یہ کہنا کہ میں نے اس پر قبضہ نہیں کیا ہے قابل تصدیق نہیں چاہے اس جملہ کو کلام سابق سے متصل بولا ہو یا بیچ میں فاصلہ ہو گیا ہو دونوں کا ایک حکم ہے۔ (ہدایہ)

مسئلہ ۱۸ : یہ چیز مجھے زید نے دی ہے اور یہ عمرو کی ہے اگر زید نے بھی یہ اقرار کیا کہ وہ عمرو کی ہے اورعمرو کی اجازت سے میں نے دی ہے اور عمرو بھی زید کی تصدیق کرتا ہے تو اسے اختیار ہے کہ وہ چیز زید کو واپس دے یا عمرو کوجس کو چاہے دے سکتا ہے اور اگر عمرو کہتا ہے میں نے ز ید کو چیز دینے کی اجازت نہیں دی تھی تو زید کو واپس نہ دے اور یہ مقر زید کو تاوان بھی نہیں دے گا۔ اور اگر زید و عمرو دونوں اس چیز کو اپنی ملک بتاتے ہوں تو مقر یہ چیز زید کو دے کہ زید ہی نے اسے دی ہے اور زید کو دیدینے سے یہ شخص بری ہو گیا زید مالک ہو یا نہ ہو۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۱۹ : فلاں شخص کے میرے ذمہ ہزار روپے ہیں وہ شراب یا خنزیر کی قیمت کے ہیں یا مردار یا خون کی بیع کے دام میں ہیں یا جوے میں مجھ پر یہ لازم ہوئے ان سب صورتوں میں جب کہ مقر نے ایسی چیز ذکر کر دی جس کی وجہ سے مطالبہ ہو ہی نہیں سکتا مثلاً شراب و خنزیر کے ثمن کا مطالبہ کہ یہ باطل ہے لہذا اس چیز کے ذکر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ مقر اپنے اقرار سے رجوع کرتا ہے۔ کہنے کو تو ہزار روپے کہہ دیا اور فوراً اس کو دفع کرنے کی ترکیب یہ نکالی کہ ایسی چیز ذکر کر دی جس کی وجہ سے دینا ہی نہ پڑے اور اقرار کے بعد رجوع نہیں کر سکتا لہذا ان صورتوں میں ہزار روپے مقر پر لازم ہیں ہاں اگر مقر نے گواہوں سے ثابت کیا کہ جن روپوں کا اقرار کیا ہے وہ اسی قسم کے ہیں جس کو مقر نے بیان کیا ہے یا خود مقرلہ نے مقر کی تصدیق کی تو مقرپر کچھ لازم نہیں ۔ (ہدایہ ، درمختار)

مسئلہ ۲۰ : میرے ذمہ فلاں شخص کے ہزارروپے حرام کے ہیں یا سود کے ہیں اس صورت میں بھی روپے لازم ہیں اور اگر یہ کہا کہ ہزار روپے زور یا باطل کے ہیں اور مقرلہ تکذیب کرتا ہے تو لازم اور تصدیق کرتا ہے تو لازم نہیں ۔ (بحرالرائق)

مسئلہ ۲۱ : یہ اقرار کیا کہ میں نے سامان خریدا تھا اسکے ثمن کے روپے مجھ پر ہیں یا میں نے فلاں سے قرض لیا تھا اس کے روپے میرے ذمہ ہیں اسکے بعد یہ کہتا ہے کہ وہ کھوٹے روپے ہیں یاجست کے سکے ہیں یا ان پیسوں کا چلن اب بند ہے ان سب صورتوں میں اچھے روپے دینے ہوں گے اس نے یہ کلام پہلے جملہ کے ساتھ وصل کیا ہو یا فصل کیا ہو کیونکہ یہ رجوع ہے اور اگر یوں کہا کہ فلاں شخص کے میرے ذمہ اتنے روپے کھوٹے ہیں اور وجوب کا سبب نہ بتایا ہو تو جس طرح کے کہتا ہے ویسے ہی واجب ہیں ۔ اور اگر یہ اقرار کیا کہ اس کے میرے ذمہ ہزار روپے غصب یا امانت کے ہیں پھر کہتا ہے وہ کھوٹے ہیں مقر کی تصدیق کی جائے گی اس جملہ کو وصل کے ساتھ کہے یا فصل کے ساتھ کیونکہ غصب کرنے والا کھرے کھوٹے کا امتیاز نہیں کرتا اور امانت رکھنے والے کے پاس جیسی چیز ہوتی ہے رکھتا ہے۔ غصب یا ودیعت کے اقرار میں اگر یہ کہتا ہے کہ جست کے وہ روپے ہیں اور وصل کے ساتھ کہا تو مقبول ہے اور فصل کر کے کہا تو مقبول نہیں ۔ (درمختار ، بحر)

مسئلہ ۲۲ : بیع تلجۂ کا اقرار کیا یعنی میں نے ظاہر طور پر بیع کی تھی حقیقت میں بیع مقصود نہ تھی اگرمقرلہ نے اس کی تکذیب کی تو بیع لازم ہو گی ورنہ نہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ ۲۳ : یہ اقرار کیا کہ فلاں کے میرے ذمہ ہزار روپے ہیں پھر کہتا ہے یہ اقرار میں نے تلجۂ کے طور پر کیا مقرلہ کہتا ہے واقع میں تمہارے ذمہ ہزار ہیں اگر مقرلہ نے اس سے پہلے تلجۂ کا اقرار نہ کیا ہو تومقرکو مال دینا ہی ہو گااور اگر مقرلہ تلجۂ کی تصدیق کرلے گا تو کچھ لازم نہ ہو گا۔ (عالمگیری)

طلاق کا اقرار

مسئلہ ۱ : مرد نے اقرار کیا کہ میں نے فلانی عورت سے ہزار روپے میں نکاح کیا پھر مرد نے نکاح سے انکار کر دیا اور عورت نے بھی اس کی تصدیق کی تھی تو نکاح جائز ہے عورت کو مہر بھی ملے گا اور میراث بھی ہاں اگر مہر مقرر مہر مثل سے زائد ہو اور نکاح کا اقرار مرض میں ہوا ہو تو یہ زیادتی باطل ہے۔ اور اگر عورت نے اقرار کیا کہ میں نے فلاں سے اتنے مہر پر نکاح کیا پھر عورت نے انکار کر دیا اگر شوہر نے عورت کی زندگی میں تصدیق کی نکاح ثابت ہو جائے گا اور مرنے کے بعد تصدیق کی تو نہ نکاح ثابت ہو گا نہ شوہر کی میراث ملے گی۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲ : عورت نے مرد سے کہا مجھے طلاق دیدے یا اتنے پر خلع کر لے یا کہا مجھے اتنے روپے کے عوض کل طلاق دیدی یا مجھ سے کل خلع کر لیا یا تو نے مجھ سے ظہار کیا یا ایلا کیا ان سب صورتوں میں نکاح کا اقرار ہے۔ یونہی مرد نے عورت سے کہا میں نے تجھ سے ظہار کیا ہے یا ایلا کیا ہے یہ مرد کی جانب سے اقرار نکاح ہے اور اگر عورت سے ظہار کے الفاظ کہے یعنی یہ کہ تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی مثل ہے یہ اقرار نکاح نہیں ۔ (عالمگیری)

مسئلہ۳ : عورت نے مرد سے کہا مجھے طلاق دیدے مرد نے کہا تو اپنے نفس کو اختیار کر یا تیرا امر تیرے ہاتھ میں ہے یہ اقرار نکاح ہے اور اگر مرد نے ابتداً یہ کلام کہا عورت کے جواب میں نہیں کہا تو اس کی دو صورتیں ہیں اگر یہ کہا تیرا امر طلاق کے بارے میں تیرے ہاتھ میں ہے یہ اقرار ہے اور اگر طلاق کا ذکر نہیں کیا تو اقرار نکاح نہیں ۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۴ : مرد نے کہا تجھے طلاق ہے یہ اقرار نکاح ہے اور اگر کہا تو مجھ پر حرام ہے یا بائن ہے تو اقرار نکاح نہیں مگر جب کہ عورت نے طلاق کا سوال کیا ہو اور اس نے اس کے جواب میں کہا ہو۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۵ : شوہر نے اقرار کیا کہ میں نے تین مہینے ہوئے اسے طلاق دیدی ہے اور نکاح کو ابھی ایک ہی مہینہ ہوا ہے تو طلاق واقع نہیں ہوئی اور نکاح کو چار مہینے ہو گئے ہیں تو طلاق ہو گئی پھر اس صورت میں اگر عورت شوہر کی تصدیق کرتی ہو تو عدت اس وقت سے ہو گئی جب سے شوہر طلاق دینا بتاتا ہے اور تکذیب کرتی ہو تو وقت اقرار سے عدت ہو گی۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۶ : شوہر نے بعد دخول یہ اقرار کیا کہ میں نے دخول سے پہلے طلاق دیدی تھی یہ طلاق واقع ہو گی اور چونکہ قبل دخول طلاق کا اقرار کیا ہے نصف مہر لازم ہو گا اور چونکہ بعد طلاق وطی کی ہے اس سے مہر مثل لازم ہو گا۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۷ : مرد نے اقرار کیا کہ میں نے اس عورت کو تین طلاق دیدی تھیں اور اس سے قبل کہ عورت دوسرے سے

نکاح کرے پھر اس نے نکاح کر لیا اور عورت کہتی ہے کہ مجھے طلاق نہیں دی تھی یا میں نے دوسرے سے نکاح کر لیا تھا اور اس نے وطی بھی کی تھی ان دونوں میں تفریق کر دی جائے گی پھر اگر دخول نہیں کیا ہے تو نصف مہر لازم ہو گا اور دخول کر لیا تو پورا مہر اور نفقۂ عدت بھی لازم ہے۔ (عالمگیری)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

یہ بھی پڑھیں:
Close
Back to top button