بہار شریعت

اذان کے متعلق احادیث و مسائل

 اذان کے متعلق احادیث و مسائل کا تفصیلی مطالعہ

اذان کے متعلق احادیث و مسائل

                        قال اﷲ تعالیٰ:۔     وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَنْ دَعَا اِلَی اللّٰہ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔

   (اس سے اچھی کس کی بات جو اﷲ کی طرف بلائے اور نیک  کام کرے اور یہ کہے کہ میں مسلمانوں میں ہوں)۔

متعلقہ مضامین

                        امیر المومنین فاروقِ اعظم اور عبداﷲ بن زید بن عبد ربہٖ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو اذان خواب میں تعلیم ہوئی حضور اقدس ﷺ نے فرمایا یہ خواب حق ہے اور عبد اﷲ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا جاؤ بلال کو تلقین کرو وہ اذان کہیں کہ وہ تم سے زیادہ بلند آواز ہیں، اس حدیث کو ابو داؤد ترمذی و ابن ماجہ و دارمی نے روایت کیا رسول اﷲ ﷺ نے بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم فرمایا کہ اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں کر لو کہ اس کے سبب آواز بلند ہو گی اس حدیث کو ابن ماجہ نے عبدالرحمٰن بن سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا اذان کہنے کی بہت بڑی بڑی فضیلتیں احادیث میں مذکور ہیں بعض فضائل ذکر کئے جاتے ہیں۔

احادیث:

حدیث ۱: مسلم و احمد و ابن ماجہ معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی فرماتے ہیں ﷺ مو ٔذنوں کی گردنیں قیامت کے دن سب سے زیادہ دراز ہوں گی۔ علامہ عبدالرؤف مناوی تیسیر میں فرماتے ہیں یہ حدیث متواتر ہے اور حدیث کے معنی یہ بیان فرماتے ہیں کے مؤذن رحمتِ الہٰی کے بہت امیدوار ہوں گے کہ جس کو جس چیز کی امید ہوتی ہے اس کی طرف گردن دراز کرتا ہے یا اس کے یہ معنی ہیں کہ ان کو ثواب بہت ہے اور بعضوں نے کہا یہ کنایہ ہے اس سے کہ شرمندہ نہ ہوں گے اس لئے کہ جو شرمندہ ہوتا ہے اس کی گردن جھک جاتی ہے۔

حدیث۲:            امام احمد ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں مؤذن کی جہاں تک آواز پہنچتی ہے اس کے لئے بخشش کر دی جاتی ہے اور جس نے ہر تر و خشک اس کی آواز سنی اس کی تصدیق کرتا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ ہر تر و خشک جس نے آواز سنی اس کے لئے گواہی دے گا دوسری روایت میں ہے ہر ڈھیلا اور پتھر اس کے لئے گواہی دے گا۔

حدیث ۳:            بخاری و مسلم و مالک و ابوداؤد ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ جب اذان کہی جاتی ہے شیطان گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے یہاں تک کہ اذان کی آواز اسے نہ پہنچے جب اذان پوری ہو جاتی ہے چلا آتا ہے پھر جب اقامت کہی جاتی ہے بھاگ جاتا ہے جب پوری ہو لیتی ہے آجاتا ہے اور خطرہ ڈالتا ہے کہتا ہے فلاں بات یاد کر وہ جو پہلے یاد نہ تھی یہاںتک کہ آدمی کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کتنی پڑھی۔

حدیث ۴:            صحیح مسلم میں جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں شیطان جب اذان سنتا ہے اتنی دور بھاگتا ہے جیسے روحا اور روحا مدینہ سے ۳۶ میل کے فاصلہ پر ہے۔

حدیث ۵:            طبرانی عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ اذان دینے والا کہ طالبِ ثواب ہے اس شہید کی مثل ہے کہ خون میں آلودہ ہے اور جب مرے گا قبر میں اس کے بدن میں کیڑے نہ پڑیں گے۔

حدیث ۶:            امام بخاری اپنی تاریخ میں انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ جب مؤذن اذان کہتا ہے رب عزوجل اپنا دستِ قدرت اس کے سر پر رکھتا ہے اور یونہی رہتا ہے یہاں تک کہ اذان سے فارغ ہو اور اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے جہاں تک آواز پہنچے جب وہ فارغ ہو جاتا ہے رب عزوجل فرماتا ہے میرے بندہ نے سچ کہا اور تو نے حق گواہی دی لہٰذا تجھے بشارت ہو۔

حدیث ۷:            طبرانی صغیر میں انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ جس بستی میں اذان کہی جائے اﷲ تعالیٰ اپنے عذاب سے اس دن اسے امن دیتا ہے۔

حدیث ۸:            طبرانی معقل بن یسار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ جس قوم میں صبح کو اذان ہوئی ان کے لئے اﷲ کے عذاب سے شام تک امان ہے اور جن میں شام کو اذان ہوئی ان کے لئے اﷲ کے عذاب سے صبح تک امان ہے۔

حدیث ۹: ابو یعلی مسند میں اُبی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ میں جنت میں گیا اس میں موتی کے گنبد دیکھے اس کی خاک مشک کی ہے فرمایا، اے جبریل یہ کس کے لئے ہے عرض کی حضور کی اُمّت کے مؤذنوں اور اماموں کے لئے۔

حدیث ۱۰:           امام احمد ابو سعید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان کہنے میں کتنا ثواب ہے تو اس پر باہم تلوار چلتی۔

حدیث ۱۱:            ترمذی و ابن ماجہ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ جس نے سات برس ثواب کیلئے اذان کہی اﷲ تعالیٰ اس کے لئے نار سے برأت لکھ دے گا۔

حدیث ۱۲:           ابن ماجہ و حاکم ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ جس نے بارہ برس اذان کہی اس کے لئے جنت واجب ہو گئی اور ہر روز اس کی اذان کے بدلے ساٹھ نیکیاں اور اقامت کے بدلے ۳۰ نیکیاں لکھی جائیں گی۔

حدیث ۱۳:           بیہقی کی روایت ثوبان ثوری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے یوں ہے کہ فرماتے ہیں ﷺ جس نے سال بھر اذان پر محافظت کی اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔

حدیث ۱۴:           بیہقی نے ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ فرماتے ہیں ﷺ جس نے پانچ نمازوں کی اذان ایمان کی بنا پر ثواب کے لئے کہی اس کے جو گناہ پہلے ہوئے ہیں معاف ہو جائیں گے اور جو اپنے ساتھیوں کی پانچ نمازوں میں امامت کرے ایمان کی بنا پر ثواب کے لئے اس کے جو گناہ پیشتر ہوئے معاف کر دئیے جائیں گے۔

حدیث ۱۵:           ابن عساکر انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ جو سال بھر اذان کہے اور اس پر اجرت طلب نہ کرے قیامت کے دن بلایا جائے گا اور جنت کے دروازہ پرکھڑا کیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا جس کے لئے تُو چاہے شفاعت کر۔

حدیث ۱۶:           خطیب و ابن عساکر انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ مؤذنوں کا حشر یوں ہو گا کہ جنت کی اونٹنیوں پر سوار ہوں گے ان کے آگے بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہوں گے سب کے سب بلند آواز سے اذان کہتے آئیں گے لوگ ان کی طرف نظر کریں گے پوچھیں گے یہ کون لوگ ہیں کہا جائے گا یہ اُمّت محمد ﷺ کے مؤذن ہیں لوگ خوف میں ہیں اور ان کو خوف نہیں لوگ غم میں ہیں اور ان کو غم نہیں۔

حدیث ۱۷:           ابوالشیخ انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں ﷺ جب اذان کہی جاتی ہے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دُعا قبول ہوتی ہے جب اقامت کا وقت ہوتا ہے دُعا رد نہیں کی جاتی ابو داؤد ترمذی کی روایت انہیں سے ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اذان و اقامت کے درمیان دُعا رد نہیں کی جاتی۔

حدیث ۱۸:           دارمی و ابوداؤد نے سہل بن سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں دو دُعائیں رد نہیں ہوتیں یا بہت کم رد ہوتی ہیں اذان کے وقت اور جہاد کی شدّت کے وقت۔

حدیث ۱۹:           ابو الشیخ نے روایت کی کہ فرماتے ہیں ﷺ اے ابن عباس اذان کو نماز سے تعلق ہے تو تم میں کوئی شخص اذان نہ کہے مگر حالتِ طہارت میں۔

حدیث ۲۰:          ترمذی ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ لَا یُوْذَنُ اِلَّا مُتَوَضِّیٌٔ (کوئی شخص اذان نہ کہے مگر با وضو)۔

حدیث ۲۱:           بخاری و ابو داؤد و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ احمد جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ جو اذان سُن کر یہ دُعا پڑھے ۔اَلّٰلھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلٰوۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ مُحمَّدَنِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامً مَّحْمُوْدَ نِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہ‘۔ اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔

حدیث ۲۲:          امام احمد و ابو داؤد و ترمذی و نسائی کی روایت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ مؤذن کا جواب دے پھر مجھ پر درود پڑھے پھر وسیلہ کا سوال کرے۔

حدیث ۲۳:          طبرانی کی روایت میں ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے وَجَعَلْنَا فِیْ شَفَاعَتِہٖ یَوْمَ القِیَامَۃِ  بھی ہے۔

حدیث ۲۴:          طبرانی کبیر میں کعب بن عجرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں حضور ﷺ نے فرمایا جب تُو اذان سُنے تو اﷲ کے داعی کا جواب دے۔

حدیث ۲۵:          ابن ماجہ ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ جب موذّن کو اذان کہتے سنو تو وہ جو  کہتا ہے تم بھی کہو۔

حدیث ۲۶:          فرماتے ہیں ﷺ مومن کو بدبختی و نامرادی کے لئے کافی ہے کہ موذّن کو تکبیر کہتے سنے تو اجابت نہ کرے۔

حدیث ۲۷:          فرماتے ہیں ﷺ ظلم ہے پورا ظلم اور کفر ہے اور نفاق ہے یہ کہ اﷲ کے منادی کو اذان کہتے سُنے اور نہ حاضر ہو یہ دونوں حدیثیں طبرانی نے معاذ بن انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی اذان کے جواب کا نہایت عظیم ثواب ہے۔

حدیث ۲۸:          ابوالشیخ کی روایت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہے اس کی مغفرت ہو جائے گی۔

حدیث ۲۹:           ابن عساکر نے روایت کی کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا اے گروہ زنان جب تم بلال کو اذان و اقامت کہتے سنو تو جس طرح وہ کہتا ہے تم بھی کہو کہ اﷲ تعالیٰ تمہارے لئے ہر کلمہ کے بدلے ایک لاکھ نیکی لکھے گا اور ہزار درجے بلند فرمائے گا اور ہزار گناہ محو کرے گا عورتوں نے عرض کی یہ تو عورتوں کے لئے ہے مردوں کے لئے کیا ہے فرمایا مردوں کے لئے دُونا۔

حدیث ۳۰:          طبرانی کی روایت میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے ہے کہ عورتوں کے لئے ہر کلمہ کے مقابل دس لاکھ درجے بلند کئے جائیں گے فاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یہ عورتوں کے لئے ہے مردوں کے لئے کیا ہے فرمایا مردوں کے لئے دُونا۔

حدیث ۳۱:           حاکم و ابو نعیم ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ حضور ﷺ نے فرمایا مؤذن کو نماز پڑھنے والے پر دوسو بیس حسنہ زیادہ ہے مگر وہ جو اس کی مثل کہے اور اگر اقامت کہے تو ایک سو چالیس نیکی ہے مگر وہ جو اس کی مثل کہے۔

حدیث ۳۲:          صحیح مسلم میں امیرالمومنین حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ جب موذن اذان دے تو جو شخص اس کی مثل کہے اور جب حَیَّ عَلَی الصَّلٰاۃِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کہے تو یہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کہے جنت میں داخل ہو گا۔

حدیث ۳۳:          ابو داؤد و ترمذی و ابن ماجہ نے روایت کی زیاد بن حارث رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں نماز فجر میں رسول اﷲ ﷺ نے اذان کہنے کا مجھے حکم دیا میں نے اذان کہی بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اقامت کہنی چاہی فرمایا صدائی نے اذان کہی اور جو اذان دے  وہی اقامت کہے۔

مسائل فقہیہ: 

       اذان عرف شرع میں ایک خاص قسم کا اعلان ہے جس کے لئے الفاظ مقرر ہیں الفاظِ اذان یہ ہیں:۔

                        اَللَّہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ

                        اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ

                        اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ

                        اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ

                        اَشْھَدُ اَنْ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللَّہِ

                        اَشْھَدُ اَنْ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللَّہِ

                        حَیَّ عَلَی الصَّلٰاۃِ

                        حَیَّ عَلَی الصَّلٰاۃِ

                        حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ

                        حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ

                        اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ

                        لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ

مسئلہ ۱:               فرض پنج گانہ کہ انہیں میں جمعہ بھی ہے جب جماعت مستحبہ کے ساتھ مسجد میں وقت پر ادا کئے جائیں تو ان کے لئے اذان سنت مؤکدہ ہے اور اس کا حکم مثل واجب ہے کہ اگر اذن نہ کہی تو وہاں کے سب لوگ گنہگار ہوں گے یہاں تک کہ امام محمد رحمۃ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا اگر کسی شہر کے سب لوگ اذان ترک کردیں تو میں ان سے قتال کروں گا اور اگر ایک شخص چھوڑ دے تو اسے ماروں گا اور قید کروں گا۔ (خانیہ و ہندیہ و درمختار و ردالمحتار و شامی ج ۱ ص ۳۵۷)۔

مسئلہ ۲:               مسجد میں بلا اذان و اقامت جماعت پڑھنا مکروہ ہے۔ (عالمگیری )

مسئلہ ۳:  قضا نماز مسجد میں پڑھے تو اذان نہ کہے اگر کوئی شخص شہرمیں گھر میں نماز پڑھے اور اذان نہ کہے تو کراہت نہیں کہ وہاں کی مسجد میں اذان اس کے لئے کافی ہے اور کہہ لینا مستحب ہے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۳۵۷)

مسئلہ ۴:              گاؤں میں مسجد ہے کہ اس میں اذن و اقامت ہوتی ہے تو وہاں گھر میں نماز پڑھنے والے کا وہی حکم ہے جو شہر میں ہے اور مسجد نہ ہو تو اذان و اقامت میں اس کا حکم مسافر کا سا ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۴)

مسئلہ ۵:              اگر بیرون شہر و قریہ باغ یا کھیتی وغیرہ میں ہے اور وہ جگہ قریب ہے تو گاؤں یا شہر کی اذان کفایت کرتی ہے پھر بھی اذان کہہ لینا بہتر ہے اور جو قریب نہ ہو تو کافی نہیں قریب کی حد یہ ہے کہ یہاں کی اذان کی آواز وہاں تک پہنچتی ہو (عالمگیری ج ۱ ص ۵۴)

مسئلہ ۶:               لوگوں نے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھی بعد کو معلوم ہوا کہ وہ نماز صحیح نہ ہوئی تھی اور وقت باقی ہے تو اسی مسجد میں جماعت سے پڑھیں اور اذان کا اعادہ نہیں اور فصل طویل نہ ہو تو اقامت کی بھی حاجت نہیں اور زیادہ وقفہ ہو تو اقامت کہے اور وقت جاتا رہا تو غیر مسجد میں اذان و اقامت کے ساتھ پڑھیں۔ (ردالمحتار عالمگیری ج ۱ ص ۵۵ مع افاداتِ رضویہ)

مسئلہ ۷:  جماعت بھر کی نماز قضا ہو گئی تو اذان و اقامت سے پڑھیں اور  اکیلا بھی قضا کے لئے اذان و اقامت کہہ سکتا ہے جب کہ جنگل میں تنہا ہو ورنہ قضا کا اظہار گناہ ہے و لہٰذا مسجد میں قضا پڑھنا مکروہ ہے اور اگر پڑھے تو اذان نہ کہے اور وتر کی قضا میں دعأ قنوت کے وقت رفع یدین نہ کرے ہاں اگر ایسے سبب سے قضا ہو گئی جس میں وہاں کے تمام مسلمان مبتلا ہو گئے تو اگرچہ مسجد میں پڑھیں اذان کہیں۔ (عالمگیری درمختار ردالمحتار مع تنقیح از افادات رضویہ)۔

مسئلہ ۸:              اہل جماعت سے چند نمازیں قضا ہوئیں تو پہلی کے لئے اذن و اقامت دونوں کہیں اور باقیوں میں اختیار ہے خواہ دونوں کہیں یا صرف اقامت پر اکتفا کریں اور دونوں کہنا بہتر۔ یہ اُس صورت میں ہے کہ ایک مجلس میں وہ سب پڑھیں اور اگر مختلف اوقات میں پڑھیں تو ہر مجلس میں پہلی اذان کہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۵)

مسئلہ ۹:               وقت ہونے کے بعد اذان کہی جائے قبل از وقت کہی گئی یا وقت ہونے سے پہلے شروع ہوئی اور اثنائے اذان میں وقت آگیا تو اعادہ کی جائے۔ (درمختار متون)

مسئلہ ۱۰: اذان کا وقت مستحب وہی ہے جو نماز کا ہے یعنی فجر میں روشنی پھیلنے کے بعد اور مغرب اور جاڑوں کی ظہر میں اوّل وقت اور گرمیوں میں ظہر اور ہر موسم کی عصر و عشاء میں نصف وقت گذارنے کے بعد مگر عصر میں اتنی تاخیر نہ ہو کہ نماز پڑھتے پڑھتے وقت مکروہ آجائے اور اگر اوّل وقت اذان ہوئی اور آخر وقت میں نماز ہوئی تو بھی سنت اذان ادا ہو گئی۔ (درمختار ردالمحتار)

مسئلہ ۱۱:              فرائض کے سوا باقی نمازوں میں مثلاً وتر، جنازہ، عیدین، نذر، سنن، رواتب، تراویح، استسقا، چاشت، کسوف، خسوف، نوافل میں اذان نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۳ ع )

مسئلہ ۱۲: بچّے اور مغموم کے کان میں اور مرگی والے اور غضب ناک اور بد مزاج  آدمی یا جانور کے کان میں اور لڑائی کی شدّت اور آتش زدگی کے وقت اور بعد دفن میت اور جن کی سرکشی کے وقت اور مسافر کے پیچھے اور جنگل میں جب راستہ بھول جائے اور کوئی بتانے والا نہ ہو اس وقت اذان مستحب ہے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۳۵۷) وبا کے زمانے میں بھی مستحب ہے (فتاویٰ رضویہ)

مسئلہ ۱۳: عورتوں کو اذان و اقامت کہنا مکروہ تحریمی ہے کہیں گی تو گناہ گار ہوں گی اور اعادہ کی جائے۔  (عالمگیری ج ۱ ص ۵۳، ردالمحتار ج ۱ ص ۳۶۴)

مسئلہ ۱۴: عورتیں اپنی نماز ادا پڑھتی ہوں یا قضا اس میں اذان و اقامت مکروہ ہے اگرچہ جماعت سے پڑھیں (ردالمحتار) کہ ان کی جماعت خود مکروہ ہے (متون)

مسئلہ ۱۵: خنثٰی و فاسق اگرچہ عالم ہی ہو اور نشہ والے اور پاگل اور نا سمجھ بچّے اور جنب کی اذان مکروہ ہے ان سب کی اذان کا اعادہ کیا جائے۔ (درمختار)

مسئلہ ۱۶: سمجھ والا بچّہ اور غلام اور اندھے اور ولدالزنا اور بے وضو کی اذان صحیح ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۳۱۴) مگر بے وضو اذان کہنا مکروہ ہے۔ (مراقی الفلاح)

مسئلہ ۱۷: جمعہ کے دن شہر میں ظہر کی نماز کے لئے اذان ناجائز ہے۔ ا گرچہ ظہر پڑھنے والے معذور ہوں جن پر جمعہ فرض نہ ہو۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۳۶۳،  ردالمحتار)

مسئلہ ۱۸: اذان کہنے کا اہل وہ ہے جو اوقاتِ نماز پہچانتا ہو اور وقت نہ پہچانتا ہو تو اس ثواب کا مستحق نہیں جو اذان کیلئے ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۳ غنیہ)

مسئلہ ۱۹:  مستحب یہ ہے کہ موذن مرد، عاقل، صالح، پرہیزگار، عالم بالسنّہ ذی وجاہت لوگوں کے احوال کا نگران اور جو جماعت سے رہ جانے والے ہوں ان کو زجر کرنے والا ہو اذان پر مداومت کرتا ہو اور ثواب کے لئے اذان کہتا ہو یعنی اذان پر اجرت نہ لیتا ہو اگر موذّن نابینا ہو اوروقت بتانے والا کوئی ایسا ہے کہ صحیح بتا دے تو اس کا اور آنکھ والے کا اذان کہنا یکساں ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۳)

مسئلہ ۲۰: اگر موذن ہی امام بھی ہو تو بہتر ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۳۷۲)

مسئلہ ۲۱: ایک شخص کی ایک وقت میں دو مسجدوں میں اذان کہنا مکروہ ہے۔ (درمختار ص ۳۷۲)

مسئلہ ۲۲: اذان و امامت کی ولایت بانیٔ مسجد کو ہے وہ نہ ہو تو اس کے کنبہ والوں کو اور اگر اہلِ محلہ نے کسی ایسے کو موذن یا امام کیا جو بانی کے موذن و امام سے بہتر ہے تو وہی بہتر ہے۔ (ردالمحتار، درمختار وشامی ج ۱ ص ۳۷۲)

مسئلہ ۲۳:            اگر اثنائے اذان میں موذن مر گیا یا اسکی زبان بند ہو گئی یا رُک گیا اور کوئی بتانے والا نہیں یا اس کو وضو ٹوٹ گیا اور وضو کرنے چلا گیا یا بے ہوش ہو گیا تو ان سب صورتوں میں سرے سے اذان کہی جائے وہی کہے خواہ دوسرا۔ (ردالمحتار و  درمختار)

مسئلہ ۲۴:            اذان کے بعد معاذا ﷲ مُرتد ہو گیا تو اعادہ کی حاجت نہیں اور بہتر اعادہ ہے اور اگر اذان کہتے میں مُرتد ہو گیا تو بہتر ہے کہ دوسرا شخص سرے سے کہے اور اگر اسی کو پورا کر لے تو بھی جائز ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۴) یعنی دوسرا شخص باقی کو پورا کر لے نہ یہ کہ وہ بعد ارتداد اس کی تکمیل کرے کہ کافر کی اذان صحیح نہیں اور اذان متجزی نہیں تو فسادِ بعض فسادِ کل ہے جیسے نماز کی پچھلی رکعت میں فساد ہو تو سب فاسد ہے (افاداتِ رضویہ)

مسئلہ ۲۵:            بیٹھ کر اذان مکروہ ہے اگر کہی اعادہ کر لے مگر مسافر اگر سواری پر اذان کہہ لے تو مکروہ نہیں اور اقامت مسافر بھی اتر کر کہے اگر نہ اترا اور سواری پر ہی کہہ لی تو ہو جائے گی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۴، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۶: اذان کہنے کی حالت میں بلا عذر کھنکارنا مکروہ ہے اور اگر گلا پڑ گیا یا آواز صاف کرنے کے لئے کھنکارا تو حرج نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۵ غنیہ)

مسئلہ ۲۷:            موذن کو حالت اذان میں چلنا مکروہ ہے اور اگر کوئی چلتا جائے اور اسی حالت میں اذان کہتا جائے تو اعادہ کریں۔ (غنیہ ردالمحتار)

مسئلہ ۲۸:            اثنائے اذان میں بات چیت کرنا منع ہے اگر کلام کیا تو پھر سے اذان کہے۔ (صغیری)

مسئلہ ۲۹: کلمات اذان میں لحن حرام ہے مثلاً اﷲ اکبر کے ہمزے کو مد ّ کے ساتھ آﷲ یا آکبر پڑھنا یونہی اکبر میں بے کے بعد الف بڑھانا حرام ہے۔ (درمختار عالمگیری وغیرہما)

مسئلہ ۳۰:            یونہی کلمات اذان کو قواعد موسیقی پر گانا بھی لحن و ناجائز ہے۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۳۱: سنت یہ ہے کہ اذان بلند جگہ کہی جائے کہ پڑوس والوں کو خوب سنائی دے اور بلند آواز سے کہے۔ (بحر ج ۱ ص ۵۵)

مسئلہ ۳۲:            طاقت سے زیادہ آواز بلند کرنا مکروہ ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۴)

مسئلہ ۳۳:            اذان منذنہ پر کہی جائے یا خارج مسجد اور مسجد میں اذان نہ کہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۴) مسجد میں اذان کہنا  مکروہ ہے۔ (غایۃ البیان فتح القدیر نظم و تدوسی طہطوی علی المراقی) یہ حکم ہر اذان کے لئے ہے فقہ کی کسی کتاب میں کوئی اذان اس کے مستشنیٰ نہیں۔ اذانِ ثانی جمعہ بھی اس میں داخل ہے۔ امام اتقافی و امام ابن الہمام نے یہ مسئلہ خاص باب جمعہ میں لکھا ہاں اس میں ایک بات البتہ زائد ہے کہ خطیب کے محاذی ہو یعنی سامنے باقی مسجد کے اندر منبر سے ہاتھ دو ہاتھ کے فاصلہ پر جیسا کہ ہندوستان میں اکثر رواج پڑ گیا ہے اس کی کوئی سند کسی کتاب میں نہیں حدیث و فقہ دونوں کے خلاف ہے۔

مسئلہ ۳۴:            اذان کے کلمات ٹھہر ٹھہر کر کہے اﷲ اکبر اﷲ اکبر دونوں مل کر ایک کلمہ ہیں دونوں کے بعد سکتہ کرے اور درمیان میں نہیں اور سکتہ کی مقدار یہ ہے کہ جواب دینے والا جواب دے لے اور سکتہ کا ترک مکروہ ہے اور ایسی اذان کا اعادہ مستحب ہے۔ (درمختار ردالمحتار عالمگیری ج ۱ ص ۵۴)

مسئلہ ۳۵:            اگر کلماتِ اذان یا اقامت میں کسی جگہ تقدیم و تاخیر ہو گئی تو اتنے کو صحیح کر لے۔ سرے سے اعادہ کی حاجت نہیں اور اگر صحیح نہ کئے اور نماز پڑھ لی تو نماز کے اعادہ کی حاجت نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۴)

مسئلہ ۳۶:            حَیَّ عَلَی الصّٰلوٰۃِ داہنی طرف منہ کر کے کہے اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ  بائیں جانب اگرچہ اذان کے لئے نہ ہو بلکہ مثلاً بچے کے کان میں یا اور کسی لئے کہی یہ پھیرنا فقط منہ کا ہے سارے بدن سے نہ پھرے۔ (متون درمختار)

مسئلہ ۳۷:            اگر منارہ پر اذان کہے تو داہنی طرف کے طاق سے سر نکال کر حَیَّ عَلَی الصّٰلوٰۃ کہے اور بائیں جانب کے طاق سے حَیَّ عَلَی الْفَلَاح۔ (شرح وقایہ) یعنی جب بغیر اس کے آواز پہنچنا پورے طور پر نہ ہو۔ (ردالمحتار) یہ وہیں ہو گا کہ مینار بند ہے اور دونوں طرف طاق کھلے ہیں اور کھلے مینارہ پر ایسا نہ کرے بلکہ وہیں صرف منہ پھیرنا ہو اور قدم ایک جگہ قائم رہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۶)

مسئلہ ۳۸:            صبح کی اذان میں فلاح کے بعد اَلصَّلوٰۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کہنا مستحب ہے۔ (عامہ کتب)

مسئلہ ۳۹: اذان کہتے وقت کانوں کے سوراخ میں انگلیاں ڈالے رہنا مستحب ہے اور اگر دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ لئے تو بھی اچھا ہے۔ (درمختار ردالمحتار) اور اوّل احسن ہے کہ ارشاد حدیث کے مطابق ہے اور بلندی آواز میں زیادہ معین۔ کان جب بند ہوتے ہیں تو آدمی سمجھتا ہے کہ ابھی پوری آواز نہ ہوئی زیادہ بلند کرتا ہے۔ (افاداتِ رضویہ)

مسئلہ ۴۰:            اقامت مثل اذان ہے یعنی احکام مذکورہ اس کے لئے بھی ہیں صرف بعض باتوں میں فرق ہے اس میں بعد فلاح کے قَدْقَامَۃِ الصَّلوٰۃُ دو بار کہیں اس میں بھی آواز بلند ہو گی مگر نہ اذان کی مثل بلکہ اتنی کہ حاضرین تک آواز پہنچ جائے اور اس کے کلمات جلدی جلدی کہیں درمیان میں سکتہ نہ کریں نہ کانوں پر ہاتھ رکھنا ہے نہ کانوں میں انگلیاں رکھنا اور صبح کی اقامت میں اَلصَّلوٰۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم نہیں اقامت بلند جگہ یا مسجد میں باہر ہونا سنت نہیں اگر امام نے اقامت کہی تو قَدْقَامَۃِ الصَّلوٰۃُ کے وقت آگے بڑھ کر مصلیٰ پرچلا جائے۔ (درمختار ردالمحتار عالمگیری غنیہ وغیرہا)

مسئلہ ۴۱: اقامت میں بھی حَیَّ عَلَی الصّٰلوٰۃ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے وقت داہنے بائیں منہ پھیرے۔ (درمختار)

مسئلہ ۴۲:            اقامت کی سنیّت اذان کی بہ نسبت زیادہ مؤکد ہے۔ (درمختار)

مسئلہ ۴۳:            جس نے اذان کہی اگر موجود نہیں تو جو چاہے اقامت کہہ لے اور بہتر امام ہے اور موذن موجود ہے تو اس کی اجازت سے دوسرا کہہ سکتا ہے کہ یہ اسی کا حق ہے اور بے اجازت کہی اور موذن کو ناگوار ہو تو مکروہ ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۴)

مسئلہ ۴۴:            جنب و محدث کی اقامت مکروہ ہے مگر اعادہ نہ کی جائے گی۔ بخلاف اذان کے جب جنبی اذان کہے تو دوبارہ کہی جائے اس لئے کہ اذان کی تکرار مشروع ہے اور اقامت دوبارہ نہیں۔ (درمختار)

مسئلہ ۴۵:            اقامت کے وقت کوئی شخص آیا تو اسے کھڑے ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے بلکہ بیٹھ جائے جب مکبرحَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ پر پہنچے اس وقت کھڑا ہو۔ یوہیں جو لوگ مسجد میں موجود ہیں وہ بیٹھے رہیں اس وقت اٹھیں جب مکبرحَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ پر پہنچے یہی حکم امام کے لئے ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۷) آج کل اکثر جگہ رواج پڑ گیا کہ وقت اقامت سب لوگ کھڑے رہتے ہیں بلکہ اکثر جگہ تو یہاں تک ہے کہ جب تک امام مصلے پر کھڑا نہ ہو اس وقت تک تکبیر نہیں کہی جاتی یہ خلاف سنت ہے۔

مسئلہ ۴۶:            مسافر نے اذان و اقامت دونوں نہ کہی یا اقامت نہ کہی تو مکروہ ہے اور اگر صرف اقامت پر اکتفا کیا تو کراہت نہیں مگر اولیٰ یہ ہے کہ اذان بھی کہے اگرچہ تنہا ہو یا اس کے سب ہمراہی وہیں موجود ہوں۔ (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۴۷:            بیرونِ شہر کسی میدان میں جماعت قائم کی اور اقامت نہ کہی تو مکروہ ہے اور اذان نہ کہی تو حرج نہیں مگر خلافِ اولیٰ ہے۔ (خانیہ)

مسئلہ ۴۸:            مسجد محلہ یعنی جس کے لئے امام و جماعت معین ہو کہ وہی جماعت اُولیٰ قائم کرتا ہو اس میں جب جماعت اُولیٰ بطریق مسنون ہو چکی تو دوبارہ اذان کہنا مکروہ ہے اور بغیر اذان اگر دوسری جماعت قائم کیجائے تو امام محراب میں کھڑا نہ ہو بلکہ داہنے یا بائیں ہٹ کر کھڑا ہو کہ امیتاز رہے۔ اس امام جماعت ثانیہ کو محراب میں کھڑا ہونا مکروہ ہے او مسجد محلہ نہ ہو جیسے سڑک، بازار، اسٹیشن، سرائے کی مسجدیں جن میں چند اشخاص آتے ہیں اور پڑھ کر چلے جاتے ہیں پھر کچھ اور آئے اور پڑھی وعلیٰ ہذا تو اس مسجد میں تکرار اذان مکروہ نہیں بلکہ افضل یہی ہے کہ ہر گروہ کہ نیا  آئے جدید اذان و اقامت کے ساتھ جماعت کرے ایسی مسجد میں ہر امام محراب میں کھڑا ہو۔ (درمختار عالمگیری ج ۱ ص ۵۵، فتاویٰ قاضی خان بزاریہ) محراب سے مراد وسط مسجد ہے یہ طاق معروف ہو یا نہ ہو جیسے مسجد الحرام شریف جس میں یہ محراب اصلاً نہیں یا ہرمسجد صیفی یعنی صحن مسجد اس کا وسط محراب ہے اگرچہ وہاں عمارت اصلاً نہیں ہوتی محراب حقیقی یہی ہے اور وہ شکل طاق محراب صوری کہ زمانہ رسالت و زمانہ خلفائے راشدین میں نہ تھی ولید بادشاہ مردانی کے زمانہ میں حادث ہوئی۔ (فتاویٰ رضویہ) بعض لوگوں کے خیال میں ہے کہ دوسری جماعت کا امام پہلے کے مصلے پر نہ کھڑا ہو لہٰذا مصلے ہٹا کر وہیں کھڑے ہوتے ہیں جو امام اوّل کے قیام کی جگہ ہے یہ جہالت ہے اس جگہ سے دہنے بائیں ہٹنا چاہیے مصلے اگرچہ وہی ہو۔ (افاداتِ رضویہ)

 مسئلہ ۴۹: مسجد محلہ میں بعض اہل محلہ نے اپنی جماعت پڑھ لی ان کے بعد امام اور باقی لوگ آئے تو جماعت اُولیٰ انہیں کی ہے پہلوں کے لئے کراہت۔ یونہی اگر غیر محلہ والے پڑھ گئے ان کے بعدمحلہ کے لوگ آئے تو جماعت اُولیٰ یہی ہے اور امام اپنی جگہ کھڑا ہو گا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۴)

مسئلہ ۵۰:            اگر اذان آہستہ ہوئی تو پھر اذان کہی جائے اور پہلی جماعت ، جماعت اُولیٰ نہیں۔ (قاضی خان)

مسئلہ ۵۱: اثنائے اقامت میں موذن کو سلام کرنا ناجائز ہے جس طرح اذان میں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۵)

مسئلہ ۵۲:            اثنائے اذان و اقامت میں اس کو کسی نے سلام کیا تو جواب نہ دے بعد ختم بھی جواب دینا واجب نہیں۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۵۳:            جب اذان سُنے تو جواب دینے کا حکم ہے یعنی موذن جو کلمہ کہے اس کے بعد سُننے والا بھی وہی کلمہ کہے مگر حَیَّ عَلَی الصّٰلوٰۃ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے جواب میں لَا حَوْلَ وَلَا قْوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کہے اور بہتر یہ ہے کہ دونوں کہے بلکہ اتنا لفظ اور ملا لے مَا شَائَ اللّٰہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَاء لَمْ یَکُنْ (جو اﷲ نے چاہا ہوا جو نہیں چاہا نہیں ہوا) (درمختار، ردالمحتار عالمگیری ج ۱ ص ۵۷)

مسئلہ ۵۴:             اَلصَّلوٰۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم کے جواب میں صَدَقْتَ وَ بَرَرْتَ وَبِالْحَقِّ نَطَقْتَ (تو سچا اور نیکو کار ہے اور تو نے حق کہا ہے) کہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۷، درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۵۵:            جُنب بھی اذان کا جواب دے۔ حیض نفاس والی عورت اور خطبہ سننے والے اور نمازِ جنازہ پڑھنے والے اور جماع میں مشغول یا قضائے حاجت میں ہوں ان پر جواب نہیں۔ (درمختار)

مسئلہ ۵۶:            جب اذان ہو تو اتنی دیر کے لئے سلام کلام اور جواب سلام تمام اشغال موقوف کر دے یہاں تک کہ قرآن مجید کی تلاوت میں اذان کی آواز آئے تو تلاوت موقوف کر دے اور اذان کو غور سے سُنے اور جواب دے یونہی اقامت میں۔ (درمختار، عالمگیری ج ۱ ص ۵۷) جو اذان کے وقت باتوں میں مشغول رہے اس پر معاذ اﷲ خاتمہ برا ہونے کا خوف ہے۔ (فتاویٰ رضویہ)

مسئلہ ۵۷:            راستہ پر چل رہا تھا کہ اذان کی آواز آئی تو اتنی دیر کھڑا ہو جائے سُنے اور جواب دے۔ (عالمگیری بزازیہ)

مسئلہ ۵۸:            اقامت کا جواب مستحب ہے اس کا جواب بھی اسی طرح۔ فرق اتنا ہے قَدْقَامَتِ الصَّلوٰۃ کے جواب میں اَقَامَھَا اللّٰہُ وَ اَدَامَھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضُ ( اﷲ اس کو قائم رکھے اور ہمیشہ رکھے جب تک آسمان اور زمین ہیں)کہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۷) یا اَقَامَھَا اللّٰہُ وَ اَدَامَھَا وَجَعَلْنَا مِنْ صَالِحِیْ اَھْلِھَا اَحْیائً وَ اَمْوَاتًا (اﷲ اس کو قائم رکھے اور ہم کو زندگی اور مرنے کے بعد اس کے نیک لوگوںمیں رکھے) (افاداتِ رضویہ)

مسئلہ ۵۹: اگر چند اذانیں سُنے تو اس پر پہلی ہی کا جواب ہے اور بہتر یہ ہے کہ سب کا جواب دے۔ (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۶۰: اگر بوقتِ اذان جواب نہ دیا تو اگر زیادہ دیر نہ ہوئی جواب دے لے۔ (درمختار)

مسئلہ ۶۱: خطبہ کی اذان کا جواب زبان سے دینا مقتدیوں کو جائز نہیں۔ (درمختار)

مسئلہ ۶۲: جب اذان ختم ہو جائے تو مؤذن اور سامعین درود شریف پڑھیں اس کے بعد یہ دُعا اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَۃِ وَالصَّلوٰۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ سَیَّدَنَا مْحَمَّدَنِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَالدَّ رَجَۃَ الرَّفِیْعَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَنِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہ‘ وَجَعَلْنَا فِیْ شَفَاعَتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ

                        (اے اﷲ اس دعائے تام اور نماز  برپا ہونے والی کے مالک تو ہمارے سردار محمد ﷺ کو وسیلہ اور فضیلت اور بلند درجہ عطا کر اور ان کو مقام محمود میں کھڑا کر جس کا تو نے وعدہ کیا ہے بیشک تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا)(ردالمحتار غنیہ)

مسئلہ ۶۳:            جب موذن اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہے تو سُننے والا درود شریف پڑھے اور مستحب ہے کہ انگوٹھوں کو بوسہ دے کر آنکھ سے لگا لے اور کہے قُرَّۃُ عَیْنِیْ بِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِللّٰھُمَّ مَتِّعْنِیْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ ( یا رسول اﷲ میری آنکھوں کی ٹھنڈک حضور سے ہے اے اﷲ شنائی اور بینائی کے ساتھ مجھے متمع کر)(ردالمحتار)

مسئلہ ۶۴:            اذان نماز کے علاوہ اور اذانوں کا جواب بھی دیا جائے گا جیسے بچے کے کان کی اذان۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۶۵:            اگر اذان کہی گئی مثلاً لحن کے ساتھ تو اس کا جواب نہیں بلکہ ایسی اذان سُنے بھی نہیں۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۶۶: متاخرین نے تثویب مستحسن رکھی ہے یعنی اذان کے بعد نماز کیلئے دوبارہ اعلان کرنا اور اس کیلئے شرع نے کوئی خاص الفاظ مقرر نہیں کئے بلکہ وہاں کا عرف مثلاً  اَلصَّلوٰۃُ اَلصَّلوٰۃُ یَا قَامَتْ قَامَتْ یَا اَلصَّلوَۃُ وَالسََّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۶، درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۶۷:              مغرب کی اذان کے بعد تثویب نہیں ہوتی۔ (عنایہ) اور دوبارہ کہہ لیں تو کوئی حرج نہیں۔ (درمختار)

مسئلہ ۶۸:            اذان و اقامت کے درمیان وقفہ کرنا سنت ہے۔ اذان کہتے ہی اقامت کہہ دینا مکروہ ہے مگر مغرب میں وقفہ تین چھوٹی آیتوں یا ایک بڑی کے برابر ہو باقی نمازوں میں اذان و اقامت کے درمیان اتنی دیر تک ٹھہرے کہ جو لوگ پابند جماعت ہیں آجائیں مگر اتنا انتظار نہ کیا جائے کہ وقت کراہت آجائے۔ (درمختار، عالمگیری ج ۱ ص ۵۷)

مسئلہ ۶۹: جن نمازوں سے پیشتر سنت یا نفل ہے ان میں اُولیٰ یہ ہے کہ موذن بعد اذان سنن و نوافل پڑھے ورنہ بیٹھا رہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۵۷)

مسئلہ ۷۰:            رئیس محلہ کا اس کی ریاست کے سبب انتظار مکروہ ہے ہاں اگر وہ شریر ہے اور وقت میں گنجائش ہے تو انتظار کر سکتے ہیں۔ (درمختار)

مسئلہ ۷۱: متقدمین نے اذان پر اجرت لینے کو حرام بتایا مگر متاخرین نے لوگوں میں سستی دیکھی تو اجازت دی اور اب اسی پر فتویٰ ہے مگر اذان کہنے پر احادیث میں جو ثواب ارشاد ہوئے وہ انہیں کے لئے ہیں جو اجرت نہیں لیتے۔ خالصاً اﷲ عزوجل اس خدمت کو انجام دیتے ہیں ہاں اگر لوگ بطورِ خود موذن کو صاحب حاجت سمجھ کر دے دیں تو یہ بلاتفاق جائز بلکہ بہتر ہے اور یہ اُجرت نہیں۔ (غنیہ) جب کہ المعھود کالمشروط کی حد تک نہ پہنچ جائے (افاداتِ رضویہ)

ماخوذ از:
بہار شریعت، جلد1مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

یہ بھی پڑھیں:
Close
Back to top button