استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہاتھ سے ناک صاف کیا یا ناک پر ہاتھ رکھا ، اسی طرح سر پر ہاتھ رکھے یا اپنے ہاتھوں کو منہ پر اس طرح پھیرا کہ منہ چُھپ گیا جیسا کہ عموماً پسینہ وغیرہ آ جانے پر یا وضو کے بعد چہرہ صاف کرنے میں ہوتا ہے تو اس صورت میں کچھ کفارہ لازم آئے گا یا نہیں ؟
(السائل : C/O محمد عارف عطاری، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں اگر ناک صاف کیا یا اس پر ہاتھ رکھا یا سر پر ہاتھ رکھا تو کچھ بھی لازم نہیں آئے گا کیونکہ اسے ناک ڈھکنا اور سر چھپانا نہیں کہا جاتا چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی حنفی مباحات احرام کے بیان میں لکھتے ہیں : و وضع یدہ أو ید غیرہ علی رأسہ أو أنفہ اور اس کے تحت ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
أی بالاتفاق، لأنہ لا یسمّی لابساً للرأس و لا مغطیاً للأنف (160)
یعنی، اپنا یادوسرے کا ہاتھ اپنے سر یا ناک پر رکھنا بالاتفاق مباح ہے کیونکہ اسے سر کو ڈھکنے والا اور سر کو چھپانے والا نہیں کہا جاتا۔ علامہ نظام الدین حنفی متوفی 1161ھ اور جماعت علماء ہند نے نقل کیا کہ
لا بأس بأن یضع یدہ علی أنفہ کذا فی ’’البحر الرائق‘‘ (161)
یعنی، اس میں کوئی حرج نہیں کہ محرم اپنا ہاتھ اپنے ناک پر رکھے ، اسی طرح ’’بحر الرائق‘‘ میں ہے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
نہادن دست خود یا دست غیر خود بر سر خود، یا بر بینی خودزیر انکہ تسمیہ کردہ نمی شود در عرف لابس رأس ونہ بسا تر بینی (162)
یعنی، اپنا یا دوسرے کا ہاتھ اپنے سر یا ناک پر رکھنا (مباحاتِ احرام میں سے ہے ) کیونکہ عُرف میں اس کو نہ سر ڈھاکنے والا کہتے ہیں اور نہ ناک کو چُھپانے والا۔ باقی رہا چہرہ تو اُسے چھپانا جائز نہیں ہے ، چنانچہ علّامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ اور ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
(و تغطیہ الرأس) أی کلّہ أو بعضہ لکنہ فی حق الرجل و الوجہ أی للرجل و المرأۃ (163)
یعنی، مرد کے لئے پورے سر یا اس کے کچھ حصے کو ڈھانکنا اور مرد و عورت کے لئے چہرے کو ڈھانکنا محرّماتِ احرام میں سے ہے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :
جائز نیست مُحرِم را پوشیدن تمام روی یا بعض آن اگرچہ مُحرِم مرد باشد یا زن (164)
یعنی، مُحرِم کے لئے اپنے پورے چہرے کو چُھپانا جائز نہیں ، مُحرِم چاہے مرد ہویا عورت (دونوں کا یہی حکم ہے )۔ لہٰذا صرف ناک یا منہ یا سر پر ہاتھ رکھنے میں حرج نہیں ہے اور چہرے پر ہاتھ پھیرنے کی صورت میں بھی کچھ لازم نہیں آئے گا کیونکہ اسے فقہاء کرام نے اسے محرّماتِ احرام میں ذکر نہیں کیا اور اسے عادۃً و عرفاً ڈھکنا نہیں کہا جاتا، اور اس طرح ہاتھ پھیرنا کہ چہرہ کُل یا چوتھائی چُھپ جائے اس سے احتراز کرنا چاہئے کیونکہ فقہاء کرام نے اسے مُباحاتِ احرام میں ذکر نہیں کیا ، علاوہ ازیں ہاتھ پھیرنے میں بال گرنے کا بھی احتمال ہے ، اور تولئے یا دوسرے کسی کپڑے سے ایسا کرنا ممنوع ہے جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں ہے ۔اور کپڑے سے ناک صاف کرنے کی حاجت ہو تو اس طرح صاف کرے کہ کپڑے سے چہرے کا چوتھائی حصہ نہ ڈھکنے پائے ۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الأحد، 26ذی القعدۃ1427ھ، 16دیسمبر 2006 م (296-F)
حوالہ جات
160۔ لباب المناسک و شرحہ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط،باب االإحرام، فصل : فی مباحات الإحرام ، ص174
161۔ الفتاویٰ الہندیۃ،کتاب الحج، الباب الرابع فیما یفعلہ المحرم بعد الإحرام، 1/224
162۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب اول، فصل ہشتم، در بیان مباحات احرام، ص 97
163۔ لباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب الإحرام، فصل : فی محرّمات الاحرام، ص167
164۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب اول، فصل ششم در بیان محرّمات احرام، ص87