الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہمارے ساتھ ایک عورت کواحرام عمرہ کے بعدماہواری اگئی ہے توایسی صورت میں وہ کیاکرے ،اوراگروہ اسی حالت میں عمرہ اداکرلیتی ہے توکیااس کاعمرہ اداہو جائے گا؟
(سائل : حاجی ازلبیک حج گروپ)
جواب
باسمہ تعالی وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں وہ عورت ماہواری ختم ہونے کاانتظارکرے ،پھرجب وہ حیض سے فارغ ہوجائے توغسل کرکے عمرہ کرلے ،کیونکہ حائضہ کومسجدمیں داخل ہونے اورطواف کرنے کی حرمت واردہے ۔ چنانچہ امام برہان الدین ابوالحسن علی بن ابی بکرمرغینانی حنفی متوفی593ھ لکھتے ہیں :
(لا تدخل المسجد) وكذا الجنب لقول عليه الصلاة والسلام«فاني لا احل المسجد لحائضٍ ولا جنبٍ»۔۔۔(ولا تطوف بالبيت)؛لان الطواف في المسجد۔()
یعنی،حائضہ اورجنبی علیہ الصلوۃ و السلام مسجدمیں داخل نہ ہوں ،کیونکہ نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریمﷺ کافرمان ہے ’’بے شک میں حائضہ اورجنبی علیہ الصلوۃ و السلام کے لئے مسجدکوحلال نہیں کرتا‘‘اورحائضہ نہ ہی بیت اللہ کاطواف کرے ؛ کیونکہ طواف مسجدمیں ہوتاہے ۔ علامہ نظام الدین حنفی متوفی1161ھ اورعلمائے ہندکی ایک جماعت نے لکھا ہے :
يحرم عليهما وعلى الجنب الدخول في المسجد…(ومنها)حرمة الطواف لهما بالبيت وان طافتا خارج المسجد…هكذا في ’’الكفاية‘‘()
یعنی،حیض ونفاس والی اورجنبی علیہ الصلوۃ و السلام کومسجدمیں داخل ہوناحرام ہے اورحیض ونفاس کے احکام میں سے ایک حکم ان دونوں کے لئے بیت اللہ کے طواف کی حرمت بھی ہے اوراگرچہ دونوں مسجدکے باہرسے طواف کریں .اسی طرح’’ کفایہ‘‘میں ہے ۔() اورصدرالشریعہ محمدامجدعلی اعظمی حنفی متوفی1367ھ لکھتے ہیں : ایسی عورت(یعنی حیض اورنفاس والی)کومسجد میں جانا حرام ہے …خانہ کعبہ کے اندرجانا اور اس کا طواف کرنااگرچہ مسجد حرام کے باہرسے ہوان کے لیے حرام ہے ۔() لیکن اگروہ اسی حالت میں عمرہ کرلے گی،تواس کاعمرہ بلاشبہ اداہوجائے گا، کیونکہ صحت طواف کیلئے طہارت شرط نہیں ہے ،اوراس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے ہمیں مطلق طواف کاحکم ارشادفرمایا ہے ۔ چنانچہ قران کریم میں ہے :
وليطوفوا بالبيت العتيق 29()
ترجمہ : اور اس ازاد گھر کا طواف کریں (کنزالایمان) لہٰذاصحت طواف کیلئے طہارت کی شرط لگاناجائزنہیں ۔چنانچہ علامہ قوام الدین محمدبن محمدبخاری کاکی حنفی متوفی 749ھ لکھتے ہیں :
لایجوز ان یکون شرطا،لان اللہ تعالیٰ امرنا بالطواف بقولہ تعالی : [ وليطوفوا بالبيت العتيق 29]۔()
یعنی،طواف کے لئے طہارت کوشرط قراردیناجائزنہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فرمان
"وليطوفوا بالبيت العتيق 29”
کے ذریعے (مطلق) طواف کاحکم ارشادفرمایا ہے ۔ اورطواف ایک خاص فعل ہے جوایک خاص معنی کے لئے وضع کیاہے اور وہ ہے : ’’خانہ کعبہ کے گردچکر لگانا‘‘۔ چنانچہ امام حافظ الدین نسفی متوفی710ھ لکھتے ہیں :
هو : فعل خاص وضع لمعنًى خاص،وهو : الدوران حول البيت۔()
یعنی،طواف ایک خاص فعل ہے جوخاص معنی کے لئے وضع کیاگیاہے اور وہ ہے : بیت اللہ کے گردچکرلگانا۔ اورشمس الائمہ امام ابوبکرمحمدبن احمد سرخسی حنفی متوفی483ھ لکھتے ہیں :
فالطواف موضوع لغة لمعنى معلوم لا شبهة فيه وهو : الدوران حول البيت۔()
یعنی،طواف لغوی اعتبارسے معلوم معنی کے لئے وضع کیاگیاہے جس میں شبہ نہیں ،اوروہ ہے بیت اللہ کے گردچکرلگانا۔ لہٰذاطواف کاوقوع حدث سے طہارت پرموقوف نہیں ہے حتی کہ کتاب اللہ پرعمل کرتے ہوئے بلاطہارت بھی منعقدہوجائے گا۔ چنانچہ علامہ ابوالحسن علی بن محمدبزدوی حنفی متوفی482ھ لکھتے ہیں :
فلا يكون وقفه على الطهارة عن الحدث حتى لا ينعقد الا بها عملًا بالكتاب۔()
یعنی،پس طواف حدث سے طہارت پرموقوف نہیں حتی کہ کتاب اللہ پرعمل کرتے ہوئے بلاطہارت بھی منعقدہوجائے گا۔ اورعلامہ کاکی حنفی لکھتے ہیں :
فلا يكون وقفه على الطهارة عملًا بالكتاب۔()
یعنی،پس کتاب اللہ پرعمل کرتے ہوئے طواف کااداہوناطہارت پر موقوف نہیں ہے ۔ ہاں طواف کے لئے طہارت واجب ضرورہے ،اگرچہ اس کے بغیرطواف صحیح ہوجائے گا۔ چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی993ھ اورملاعلی قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں :
(فی واجبات الطواف)ای الافعال التی یصح الطواف بدونھا وینجبر بالدم لترکھا، وھی سبعۃ (الاول : الطھارۃ عن الحدث الاکبر والاصغر)ای وان فرق بینھما فی حکم الاثم والکفارۃ، وھما من النجاسات الحکمیۃ۔()
یعنی،واجبات طواف یعنی وہ افعال جن کے بغیرطواف صحیح ہوجاتاہے اور اس کے ترک پردم کے ذریعے نقصان پوراہوتا ہے ،اوروہ افعال سات ہیں ،ان میں سے ایک حدث اکبراورحدث اصغرسے پاک ہوناہے ،اوراگرچہ ان دونوں کے درمیان گناہ اورکفارے کے حکم میں فرق ہے ،اوریہ دونوں حکمیہ نجاستوں میں سے ہیں ۔ اورعلامہ سیدمحمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ ’’بحرالرائق‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ل
ان الطهارة له واجبة فيكره تحريمًا وان صح كما في البحر وغيره۔()
یعنی،کیونکہ طواف کے لئے طہارت واجب ہے پس اس کاترک مکروہ تحریمی ہے ،اورطواف اگرچہ صحیح ہوجائے گاجیساکہ’’بحرالرائق‘‘()وغیرہ میں ہے ۔ اورحالت حیض میں طواف عمرہ کرنے پردم لازم ہوگا۔چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی اورملاعلی قاری حنفی لکھتے ہیں :
(ولو طاف للعمرۃ کلہ او اکثرہ او اقلہ ولو شوطا جنبا او حائضا او نفساءً او محدثا، فعلیہ شاۃ) ای فی جمیع الصور المذکورۃ (ولا فرق فیہ) ای فی طواف العمرۃ (بین الکثیر والقلیل والجنب والمحدث، لانہ لا مدخل فی طواف العمرۃ للبدنۃ) ای لعدم ورود الروایۃ (ولا للصدقۃ)۔ ()
یعنی،اگرکسی جنبی،حائضہ،نفاس والی یابے وضونے مکمل،اکثریااقل طواف عمرہ کرلیااگرچہ ایک ہی چکر،تواس پردم لازم ہوگایعنی مذکورہ تمام صورتوں میں ،اورطواف عمرہ میں کثیر،قلیل،جنب اوربے وضوکے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ، کیونکہ طواف عمرہ میں بدنہ کودخل نہیں ہے یعنی روایت کے واردنہ ہونے کی وجہ سے ،اورنہ ہی صدقہ کودخل ہے ۔ لہٰذاثابت ہواکہ حائضہ کوطواف کرناحرام ہے ،پس مذکورہ خاتون کوچاہیے کہ وہ ماہواری ختم ہونے کاانتظار کرے ،پھرجب وہ حیض سے فارغ ہوجائے توغسل کرکے عمرہ اداکرلے ،ہاں اگروہ اسی حالت میں عمرہ کرلے گی تواس کا عمرہ بلاشبہ اداہوجائے گا،کیونکہ طواف کاصحیح ہوناحدث سے طہارت پرموقوف نہیں ہے ،ہاں نجاست حکمیہ سے طہارت واجبات طواف سے ضرورہے ،لہٰذاحالت حیض میں طواف عمرہ کرنے کی صورت میں مذکورہ خاتون پرنہ صرف دم لازم ہوگابلکہ وہ گنہگاربھی ہوگی،جس کے سبب اسے توبہ کرنی ہوگی۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
جمعہ،13شوال1441ھ۔4جون2020م
Leave a Reply