مضامین

ابن تیمیہ کے بارے میں اعلی حضرت کا موقف

ابن تیمیہ کے بارے میں اعلی حضرت کا موقف نہایت واضح ہے۔ آپ رحمہ اللہ نے اپنی تصنیفات میں کئی جگہ پر رد کرتے ہوئے ابن تیمیہ کو بدمذہب و گمراہ فرمایا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ابن تیمیہ عقیدہ تجسیم کا قائل تھا اور عقیدہ تجسیم کا قائل اہل سنت سے خارج، بدمذہب اور گمراہ ہوتا ہے بلکہ عقیدہ تجسیم تو ایسا عقیدہ ہے کہ کوئی سلیم الفکر شخص اس عقیدے کو اللہ تعالی کی طرف منسوب کرنا پسند نہیں کرتا۔ البتہ اعلی حضرت رحمہ اللہ نے بعض جگہ پر  فن حدیث کے متعلق ابن تیمیہ کی رائے کو بھی نقل کیا ہے۔ ذیل میں اعلی حضرت کی مختلف کتب سے ابن تیمیہ کے بارے میں آپ رحمہ اللہ کے موقف کو واضح کیا گیا ہے۔ 

ابن تیمیہ کے بارے میں اعلی حضرت کا موقف

(1)  شیخ مذہب الفاسد:

فتاوی رضویہ کے حاشیہ میں ابن تیمیہ کے بارے میں اعلی حضرت  رحمہ اللہ اپنا موقف یوں بیان  فرماتے ہیں: ثم رأیت الشوکانی ذکرہ عن شیخ مذھبہ الفاسد ابن تیمیۃ انہ اختار التفصیل بجواز الصلٰوۃ علی الغائب ان لم یصل علیہ حیث مات والا لا قال واستدل لہ بما اخرجہ الطیالسی واحمد وابن ماجۃ وابن قانع والطبرانی والضیاء۴؂ فذکر الحدیث اقول اما الاستئناس فنعم واماکونہ دلیلا علیہ حجۃ فیہ فلاکما لایخفی۱۲منہ

ترجمہ: پھرمیں نے دیکھا کہ شوکانی نے اپنے فاسد مذہب کے پیشوا ابن تیمیہ سے متعلق ذکر کیا اس نے یہ تفصیل اختیار کی ہے کہ غائب کی نماز جائز ہے اگر وہاں اس کی نماز نہ ہوئی ہو جہاں انتقال کیا ورنہ جائز نہیں۔ اور کہا کہ اس پر دلیل میں وُہ حدیث پیش کی ہے جوطیالسی،امام احمد، ابن ماجہ، ابن قانع ،طبرانی اور ضیاء نے روایت کی پھر حدیث بالاذکر کی اقول اس حدیث سے رائے مذکور پر استیناس تو ہورہا ہے مگر یہ کہ اس پر یہ دلیل اور اس بارے میں حجت ہو توایسا نہیں جیسا کہ واضح ہے۔((فتاوی رضویہ، جلد9،صفحہ351، رضا فاونڈیشن، لاہور))

(2) مجسمیہ:

ایک جگہ پر اعلی حضرت نے ابن تیمیہ کو عقیدہ مجسمیہ کا حامل بتایا جو کہ واضح گمراہ عقیدہ ہے۔اعلی حضرت فرماتے ہیں:”اول الذکر نے ابن تیمیہ مجسمیہ کے رسالہ”علی العرش استوی“کی اشاعت کی۔“  ((فتاوی رضویہ، جلد14،صفحہ 399، رضا فاونڈیشن، لاہور))

(3) بدمذہب:

ایک جگہ پر ابن تیمیہ کے بارے میں اعلی حضرت رحمہ اللہ نے  بدمذہب کا لفظ استعمال فرمایا اور اس کی گفتگو کو ہذیان کہا : فتاوی رضویہ میں ہے: ”آپ نے امام اعظم و امام محمد وائمہ مذہب کے رد میں ابن قیم گمراہ کی ایک نقل اس کے استاذ ابن تیمیہ بد مذہب سے ذکر کی ہے اس کا ایک ایک حرف حرف ہذیان یا مجنون کی بڑ ہے۔“

(فتاوی رضویہ، جلد17،صفحہ542، رضا فاونڈیشن، لاہور)

(4) متہور:

ابن تیمیہ کے بارے میں اعلی حضرت رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ابن تیمیہ متہّورنے جزافاً بک دیا کہ ان ھذہ الحکایۃ کذب علٰی مالک”۔  “

(فتاوی رضویہ، جلد5،صفحہ465، رضا فاونڈیشن، لاہور)

(5) احد الضلال:

ابن تیمیہ کے بارے میں اعلی حضرت کا موقف: فتاوی رضویہ کے حاشیہ میں ہے: ”فاقول : ما یدریک وان المحدثین ھھنا من التفعیل دون الا فعال بل ھو المتعین فان القائل بہ لاشک مبتدع ضال ویؤیدہ نقلہ عن ابن تیمیۃ احد الضلال ویشیدہ ان المذکور عنہ القول بقدم العرش و ھو شخص فالمعنی قد قال بالقدم النوعی بعض الضالین ولا عزو فقد قال ابن تیمیہ بالقدم الشخصی فی العرش ھذا ولا یبعد من جہالات ابن تیمیۃ ان یقول فی العرش بالقدم النوعی فقد نقلوا عنہ التجسیم والجسم لا بدلہ من مستقر ولم یتجاسرعلی اثبات قدیم بالشخص فعاد الی النوعی اولم یرض معبودہ ان یبقی دائماً علٰی عرش خلق وقد وھن من طول الامد فاستجندلہ عرشاً کل حین ھذا  کلہ ان ثبت عنہ واللہ تعالی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ ۔“

ترجمہ: تو میں کہتا ہوں کہ تجھے کیا خبر ہے کہ محدثین یہاں پر تفعیل سے ہے نہ کہ افعال سے بلکہ افعال سے ہونا ہی متعین ہے کیونکہ اس کا قائل بلاشبہ بدعتی گمراہ ہے ابن تیمیہ جو کہ  گمراہوں میں سے ہے  اس کا نقل کرنا اس کی تائید کرتا ہے اور اس کو تقویت دیتا ہے ابن تمیہ کی طرف سے قدم عرش کا قول کرنا جو کہ شخص ہے ،  چنانچہ معنی یہ ہوا کہ بعض گمراہ قدم نوعی کے قائل ہیں اور بے شک ابن تیمیہ عرش کے قدم شخصی کا قائل ہے اور ابن تیمیہ کی جہالتوں سے بعید نہیں کہ وہ عرش کے بارے میں قدم نوعی کا قول کرے ،  کیونکہ اس سے منقول ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کے لیے جسم مانتا ہے اور جسم کے لیے مستقر کا ہونا ضروری ہے۔ اور اس نے قدیم شخصی کے اثبات کی جسارت نہ کی ،  لہذا قدم نوعی کی طرف عود کیا، یا اس کا معبود اس بات پر راضی نہ ہوا کہ وہ ہمیشہ پرانے عرش پر رہے گا جو کہ طویل عرصہ گزرنے پر کمزور ہو چکا ہے تو اس نے ہر گھڑی نیا عرش چاہا ہے یہ تمام اس صورت میں ہے جب کہ ابن تیمہ سے یہ قول ثابت ہو۔ اور اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے۔

(فتاوی رضویہ، جلد27،صفحہ768، رضا فاونڈیشن، لاہور)

(6،7،8) خبیث، احمق، سفیہ:

”متاخرین  حنابلہ میں بعض خبثاء مجسمہ ہوگئے جیسے ابن تیمیہ وابن قیم، ابن تیمیہ کہتا ہے کہ میں نے سب جگہ ڈھونڈا کہیں نہ پایا اور معدوم ہے ان دونوں میں کچھ فرق نہیں یعنی جو کسی جگہ نہیں ہے وہ ہے ہی نہیں لیکن رب عزوجل تو معاذ اﷲ ضرور کسی جگہ ہے، اس احمق سفیہ کو اگر مادی اور مجردعن المادہ کا فرق نہ معلوم ہو تو وہ سیف قاطع جو اوپر ہم نے ذکر کی اس کی گردن کاٹنے کو کافی ، جگہ حادث ہے جب جگہ تھی ہی نہیں کہاں تھا وہ شاید یہ کہے گا کہ جب جگہ نہ تھی وہ بھی نہ تھا یا یہ کہے گا کہ جگہ بھی قدیم ازلی ہے اور دونوں کفر ہیں جب اُس کا معبود اس کے نزدیک بغیر کسی جگہ میں موجود ہوئے نہیں ہوسکتا تو جگہ کا محتاج ہوا، اور جو محتاج ہے اللہ نہیں تو حقیقۃً ان پر انکار خدا ہی لازم ہے ایسے عقیدے والے کے پیچھے نماز ممنوع و ناجائز ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔ “

(فتاوی رضویہ، جلد29،صفحہ227، رضا فاونڈیشن، لاہور)

(9) مخذول:

”بلکہ خود ابن تیمیہ مخذول بھی اُسے نقل کرگیا۔“

(فتاوی رضویہ، جلد29،صفحہ134، رضا فاونڈیشن، لاہور)

(10) رائے کو ذکر کرنا:

لیکن اسی کے ساتھ ساتھ کئی جگہ فن حدیث کے بارے میں ابن تیمیہ کی رائے کو بھی ذکر کیا مثلاً ایک جگہ ارشاد فرمایا:”   اگر چہ امام ابن حجر عسقلانی اور ان سے پہلے ابن تیمیہ نے موضوع اور امام سخاوی نے باطل کہا مگر صنیع امام جلیل جلال سیوطی سے ظاہر کہ وہ صرف ضعیف ہے باطل وموضوع نہیں۔“

(فتاوی رضویہ، جلد21،صفحہ483، رضا فاونڈیشن، لاہور)

(11) عالم:

ایک جگہ پر ابن تیمیہ کے لیے عالم کا لقب بھی استعمال فرمایا:”بعض علماء مثل ابن تیمیہ وغیرہ استدلال بر منع سفر کردہ اند بایں حدیث  لاتشدوالرحال الا الٰی ثلثۃ مساجد“

ترجمہ: بعض علما مثلا ابن تیمیہ وغیرہ لا تشد الرحال والی حدیث سے استدلال کر کے  سفر سے منع کرتے ہیں۔

(فتاوی رضویہ، جلد29،صفحہ208، رضا فاونڈیشن، لاہور)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button