استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ نو ذوالحجہ کی رات منیٰ میں گزارنا کیا ہے او راسی طرح آٹھ کے دن کو منیٰ میں جانا کیا ہے اور جو حاجی اس رات کو منیٰ میں نہ گزارے تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : نو ذوالحجہ کی رات منیٰ میں بسر کرنا سنّت ہے ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
و إن بات بمکۃ تلک اللیلۃ جاز و أساء (45)
یعنی، 9 ذوالحجہ کی رات اگر مکہ میں بسر کی تو جائز ہے اور اس نے اسائت کی (یعنی بُرا کیا)۔ اس کے تحت ملا علی القاری متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
أی ترک السنّۃ علی القول بہافقال الفارسی تبعاً کما فی ’’المحیط‘‘ المبیت بہا سنّۃ (46)
یعنی، سنّت کے قول کی بنا پرترک سنّت کی وجہ سے اسائت لازم آئی ہے ، علامہ فارسی نے ’’محیط‘‘ کی اتباع میں فرمایا : منیٰ میں (نو ذوالحجہ کی) رات بسر کرنا سنّت ہے ۔ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :
المبیت بہا فإنہ سنّۃ کما فی ’’المحیط‘‘ (47)
یعنی، (نو تاریخ کی) رات منیٰ میں بسر کرنا تو وہ سنّت ہے جیسا کہ ’’محیط‘‘ میں ہے ۔ اور اگر کسی نے یہ رات منیٰ میں بسر نہ کی پھر چاہے وہ یہ رات مکہ میں رہا ہو یا عرفات میں یا کسی اور جگہ ، اس نے سنّت کے خلاف کر کے بُرا کیا، چنانچہ امام ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :
و إن بات بمکۃ لیلۃ عرفۃ و صلی بہا الفجر، ثم غدا منہا إلی عرفات و مرّ علٰی منیٰ جاز ذلک، و لکنہ مسیٔ فیہ، لأن الرواح إلی منیٰ یوم الترویۃ سنّۃ و ترک السنّۃ مکروہ إلا للضرورۃ، ملخصاً (48)
یعنی،اور اگر عرفہ کی رات مکہ میں بسر کی اور نماز فجر وہیں ادا کی پھر وہاں سے عرفات روانہ ہوا اور منیٰ سے گزرا تو اُسے وہ جائز ہوا لیکن وہ اس میں اساء ت (بُرا) کرنے والا ہوا، کیونکہ آٹھ ذو الحجہ کو منیٰ جانا سنّت ہے او رترکِ سنّت مکروہ ہے مگر یہ کہ کسی شرعی ضرورت کی وجہ سے ہو۔ (تو مکروہ نہیں ) اورعلامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی حنفی متوفی 990ھ لکھتے ہیں :
و إن بات بمکۃ تلک اللیلۃ جاز و أساء (49)
یعنی،اگر وہ رات مکہ میں بسر کی تو جائز ہوا اور اس نے بُرا کیا۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
بودن شب عرفہ در منیٰ سنّت است، پس اگر توقّف نمود شب عرفہ در مکہ یا در عرفات یا در جائے دیگر اساء ت کردہ باشد بسبب ترک سنّت (50)
یعنی، عرفہ کی رات کو منیٰ میں ہونا سنّت ہے پس اگر شبِ عرفہ مکہ میں ٹھہرا رہا یا عرفات میں یا کسی اور جگہ تو اس نے ترکِ سنّت کے سبب اسائت کی۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : اگر عرفہ کی رات مکہ میں گزاری اور نویں کو فجر پڑھ کر منیٰ سے ہوتا ہوا عرفات میں پہنچا تو حج ہو جائے گا مگر بُرا کیا کہ سنّت کو ترک کیا۔ (51) اسی طرح وہ شخص جو رات منیٰ میں تو تھا مگر طلوعِ آفتاب سے قبل عرفات کو نکلا اس نے بھی بُرا کیا، چنانچہ صدرالشریعہ محمد امجد علی لکھتے ہیں : یوہیں اگر رات منیٰ میں گزاری مگر صبح صادق ہونے سے پہلے یا نماز فجر سے پہلے یا آفتاب نکلنے سے پہلے عرفات چلا گیا تو بُرا کیا۔ (52) اور آٹھ تاریخ دن میں منیٰ کو نکلنا سنّت ہے او راس کا تارک سنّت کا تارک ہے ، چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
خروج کردن از مکہ بسوی منٰی در روز ترویہ سنّت است پس اگر خروج نہ کرد دران روزاساء ت کردہ باشد بواسطہ مخالفت سنّت مگر آن کہ بعذرے باشد ۔ (53)
یعنی، آٹھ ذو الحجہ کو مکہ سے منیٰ کی جانب نکلنا سنّت ہے پس اگر اس روز نہ نکلا تو بُرا کیا، اس وجہ سے کہ اس نے سنّت کی مخالفت کی مگر یہ کہ اس کا نہ نکلنا کسی عذر (شرعی) کی وجہ سے ہو۔ اور دن میں بھی سورج نکلنے کے بعد منیٰ کو روانہ ہونا افضل ہے اور اگر کوئی طلوعِ آفتاب سے قبل گیا تو بھی جائز ہے اسی طرح زوال کے بعد بھی جائز ہے کیونکہ ظہر کی نماز وہاں پڑھنی ہے ، چنانچہ صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی لکھتے ہیں : (8ذی الحج) جب آفتاب نکل آئے منیٰ کو چلو، اگر آفتاب نکلنے کے پہلے ہی چلا گیا جب بھی جائز ہے ، مگر بعد میں بہتر ہے ، اور زوال کے بعد بھی جا سکتا ہے مگر ظہر کی نماز منیٰ میں پڑھے ، نیز آگے لکھتے ہیں کہ آج ظہر سے نویں کی صبح تک پانچ نمازیں یہاں (منیٰ میں ) پڑھو، یہاں رات کو ٹھہرو۔ (54) اور دیکھا گیا ہے کہ اکثر معلّم رات کو ہی حجاج کرام کو منیٰ سے عرفات پہنچا دیتے ہیں اور گروپ والے بھی یہی چاہتے ہیں کہ اُن کے حاجی رات کو ہی عرفات پہنچ جائیں تاکہ دن میں ٹریفک جام ہونے کے باعث اُن کے حاجی پریشان نہ ہوں اور یہ حقیقت ہے کہ جو گاڑیاں نو تاریخ کو دیر سے نکلتی ہیں وہ اکثر راستے میں پھنس جاتی ہیں ۔ تو ان لوگوں کو چاہئے کہ اپنے معلّم کو مجبور کریں کہ علی الصبح اُن کو گاڑی فراہم کرے تاکہ ترکِ سنّت بھی نہ ہو اور بھیڑ میں پھنسنے کا اندیشہ بھی نہ رہے ، اگرچہ افضل یہ ہے کہ طلوعِ آفتاب کے بعد عرفات کو روانہ ہو۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الثلثاء، 6ذی القعدۃ1427ھ، 28نوفمبر 2006 م (262-F)
حوالہ جات
45۔ لباب المناسک، باب خطبۃ یوم السابع، فصل فی الرواح،ص133
46۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب خطبۃ یوم السابع من ذی الحجۃ، فصل : فی الرواح، ص267
47۔ رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الحج، فصل فی الإحرام، مطلب : فی الرواح إلٰی عرفات، 3/591
48۔ المسالک فی المناسک، القسم الثانی : فی بیان نسک الحج من فرائضہ ….الخ، فصل فی الرواح من مکۃ إلیٰ منیٰ ودعواتہ، ص487
49۔ لُباب المناسک، باب خطبۃ یوم السابع، فصل فی الرواح،ص133
50۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب پنجم، فصل چہارم، ص171
51۔ بہار شریعت، حج کا بیان، منیٰ کی روانگی اور عرفہ کا وقوف، 1/1120
52۔ بہار شریعت، حج کابیان، منیٰ کا روانگی اورعرفہ کاوقوف،1/1120
53۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، ص171
54۔ بہار شریعت، حج کابیان، منیٰ کا روانگی اورعرفہ کاوقوف،1/1119