ARTICLESشرعی سوالات

آفاقی کا مکہ میں پندرہ سے کم دنوں کی اقامت کی نیت کرنا

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جو شخص حج کی غرض سے مکہ پہنچا اور اس نے پندرہ دن مکہ نہیں رہنا کہ اس سے قبل اُسے مدینہ منورہ جانا ہے او روہ اس حال میں مکہ میں اقامت کی نیت کرے تو نیت درست ہو گی؟

(السائل : سہیل نور، کراچی)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں مکہ مکرمہ میں اقامت کی نیت درست نہ ہو گی، کہ اس صورت میں حاجی جب مکہ مکرمہ پہنچا اور اس نے پندرہ دن سے قبل مدینہ منورہ جانا تھا اور یہ ا س کے علم میں بھی تھا تو مکہ میں پندرہ دن کی اقامت کی نیت درست نہ ہوئی کیونکہ اس نے دو الگ مستقل جگہوں پر پندرہ دن اقامت کی نیت کی ہے جو کہ درست نہیں ۔ حافظ ابو البرکات عبداللہ بن احمد بن محمود نسفی متوفی 710 ھ لکھتے ہیں :

قصر الرباعی حتی یدخل مصرہ، أو ینوی إقامۃ نصف شہر ببلد أو قریۃ لا بمکۃ و منیٰ ملخصاً (61)

یعنی، چار رکعت والے فرائض کو دو پڑھے گا یہاں تک کہ داخل ہو اپنے شہر میں یا کسی شہر یا قریہ میں نصف ماہ اقامت کی نیت کر ے (تو پھر پوری پڑھے ) نہ کہ مکہ اور منیٰ میں (یعنی اگر پندرہ دن مکہ اور منیٰ میں ٹھہرنے کا ارادہ کیا تو فرائض میں قصر کرے گا)۔ اس کے تحت علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی 970ھ لکھتے ہیں :

قولہ : لا بمکۃ و منی، أی نوی الإقامۃ بمکۃ خمسۃ عشر یومًا، فإنہ لا یتم الصلاۃ لِأن الإقامۃ لا تکون فی مکانین إذ لو جازت فی مکانین لجازت فی أماکن فیؤدی إلی أن السفر لا یتحقق، لأن إقامۃ المسافر فی المراحل لو جُمعت کانت خمسۃ عشر یومًا أو أکثر (62)

یعنی، اگر مکہ مکرمہ (اور منیٰ) میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی تو وہ فرائض کو پورا نہیں پڑھے گا (اس لئے کہ اس نے پندرہ دن کی دو الگ الگ مواضع پر اقامت کی نیت کی چنانچہ لکھتے ہیں ) کیونکہ اقامت دو (مختلف) جگہوں پر نہیں ہوتی، اقامت اگر دو الگ الگ جگہوں پر جائز ہو جائے تو متعدد الگ الگ جگہوں میں جائز ہو جائے گی تو بات یہاں تک پہنچ جائے گی کہ سفر متحقّق ہی نہ ہو ، کیونکہ مسافر کی مختلف مراحل میں اقامت کو جمع کیا جائے تو پندرہ دن یا اس سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں ۔ اور علامہ سراج الدین عمر بن ابراہیم بن نجیم حنفی متوفی 1005ھ لکھتے ہیں :

لا یتم إذا نوی الإقامۃ بمکۃ و منی و نحوہما من مکانین کل منہا أصل بنفسہ، لأنہا لو جازت فی مکانین لجازت فی أماکن، وحینئذ فلا یتحقق سفراً (63)

یعنی، فرائض کو پورا نہیں پڑھے گا جب اس نے مکہ او رمنیٰ اور ان کی مثل دو جگہوں پر اقامت کی نیت کی، جن میں سے ہر جگہ مستقل بنفسہ ٖ ہے کیونکہ اگر نیت اقامت دو جگہوں پر جائز ہو جائے تو کئی جگہوں پر بھی جائز ہو جائے گی اوراس وقت سفر متحقق نہ ہو گا۔ علّامہ محمد بن عبداللہ بن احمد غزی حنفی تمرتاشی متوفی 1004ھ اور علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :

(فیقصر إن نوی) الإقامۃ (فی أقل منہ) أی نصف شہر (أو) نوی (فیہ لکن فی غیر صالح) أو نوی فیہ لکن (بموضعین مستقلین کمکۃ و منی) (64)

یعنی، پس قصر کرے گا اگر نیت کی پندرہ دن سے کم اقامت کی یا پندرہ دن کی نیت کی لیکن ایسی جگہ نیت کی جو نیت اقامت کی صلاحیت نہیں رکھتی یا نیت تو ایسی جگہ کی جو نیت اقامت کی صلاحیت رکھتی ہولیکن مستقل دو مواضع کی نیت کی جیسے مکہ اور منی (کہ دونوں میں سے ہر ایک الگ بستی ہے )۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : جس نے اقامت کی نیت کی مگر اس کی حالت بتاتی ہے کہ پندرہ دن نہ ٹھہرے گا تو نیت صحیح نہیں ، مثلاً حج کرنے گیا اور شروع ذی الحجہ میں 15 دن مکہ مکرمہ میں ٹھہرنے کا ارادہ کیا تو یہ نیت بیکار ہے کہ جب حج کا ارادہ کیا ہے تو عرفات و منیٰ ضرور جائے گا، پھر اتنے دنوں مکہ مکرمہ میں کیونکر ٹھہر سکتا ہے ۔ بحوالہ عالمگیری ’’در مختار‘‘ (65)

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الخمیس، 2ذی القعدۃ1427ھ، 23نوفمبر 2006 م (238-F)

حوالہ جات

61۔ کنز الدقائق، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،ص187

62۔ البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب المسافر، 2/232

63۔ النہر الفائق، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، 1/346

64۔ تنویرالأبصار وشرحہ الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ص105۔106

65۔ بہار شریعت، حصہ چہارم، نمازِ مسافر کا بیان،1/747

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button