استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ آفاقی اور مکی کے حق میں نفلی طواف کرنا افضل ہے یا حرم شریف میں نفل نماز پڑھنا؟
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : علامہ عبدالرحمن بن علی بن الجوزی روایت کرتے ہیں :
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال : قال رسول اللہ ﷺ : ’’ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَ لَیْلَۃٍ عِشْرِیْنَ وَ مِائَۃ رَحْمَۃٍ تُنَزِّلُ عَلٰی ہٰذا الْبَیْتِ : فَسِتُّونَ لِلطَّائِفِیْنَ، وَ أَرْبَعُوْنَ لِلْمُصَلِّیْنَ، وَ عِشْرُوْنَ لِلنَّاظِرِیْنَ‘‘ (72)
یعنی، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ انے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ ہر دن رات میں اس گھر پر ایک سو بیس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، ساٹھ طواف کرنے والوں کے لئے ، چالیس نماز پڑھنے والوں کے لئے اور بیس (ثواب کی نیت سے کعبہ کی طرف) نظر کرنے والوں کے لئے ‘‘۔ اور امام بیہقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ رسول اللہ ا نے فرمایا کہ بیت الحرام کا حج کرنے والوں پر ایک سو بیس (120) رحمتیں نازل فرماتا ہے ، ساٹھ (60) طواف کرنے والوں کے لئے ، چالیس (40) نماز پڑھنے والوں کے لئے ، اور بیس (20) نظر کرنے والوں کے لئے ۔ اسی طرح ’’بہار شریعت‘‘ میں ہے ۔ یاد رہے کہ نبی ا کا یہ حکم مردوں کے لئے ہے کیونکہ نبی اکی ہی تعلیمات سے ہے کہ ’’عورت کو میری مسجد میں نماز پڑھنے سے زیادہ ثواب گھر میں نماز پڑھنے میں ہے ‘‘ ظاہر ہے کہ یہ ارشاد آپ انے مدینہ منورہ یا مکہ مکرمہ میں ہی فرمایا ہو گا اسی بنا پر علماء کرام نے فرمایا کہ حرمین طیبین میں بھی عورتوں کو اپنی رہائش گاہ میں نماز پڑھنا حرم میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ، صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : عورتیں نماز فرودگاہ ہی میں پڑھیں نمازوں کے لئے جو دونوں مسجد کریم حاضر ہوتی ہیں جہالت ہے کہ مقصود ثواب ہے ۔ (73) اور ہر شخص جانتاہے ثواب اللہ اور اس کے رسول کا کہا ماننے میں ہے ۔ اور نفلی طواف کے بارے میں وہ عورت کو ہر روز ایک بار رات کے وقت طواف کا مشورہ دیتے ہیں ، چنانچہ صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : عورتیں مکہ معظمہ میں روزانہ ایک بار رات میں طواف کر لیا کریں ۔ (74) اور مدینہ شریف میں روضۂ رسول اپر حاضری کے لئے فرمایا : اور مدینہ طیّبہ میں صبح و شام صلاۃ و سلام کے لئے حاضر ہوتی رہیں ‘‘۔ (75) اور پھر مردوں کے لئے علماء کرام کا کہنا ہے کہ آفاقی کے لئے نفلی طواف کرنا نفل نماز پڑھنے سے افضل ہے اور مکی کے لئے حج کے ایام میں نفل نماز پڑھنا نفلی طواف کرنے سے افضل ہے ، چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی متوفی 1174 ھ لکھتے ہیں :
طواف تطوع افضل است از نماز در مسجد حرام در حق غربا، و امّا متوطنانِ مکہ پس افضل درحق ایشان نماز تطوع است کذا فی ’’المنسک الکبیر ‘‘ لمولانا رحمت اللہ السندی ،و علامہ نووی در ’’ایضاح المناسک‘‘ گفتہ کہ ہمیں است قول ابن عباس و سعید بن جبیر، عطاء و مجاہد، علامہ ابن جماعہ در ’’منسک کبیر‘‘ خود گفتہ کہ ہمیں است مذہب ابی حنیفہ و مالک رحمہا اللہ ،و نزد احمد طواف افضل است از نماز مطلقاً ،و ہمیں است قول بعضے شافعیہ، و بعضے دیگر از ایشان قائل اند بر عکس آن اھ (76)
یعنی، مسافروں کے حق میں مسجد حرام میں نفل نماز پڑھنے سے نفلی طواف کرنا افضل ہے ، مگر باشندگانِ مکہ تو ان کے حق میں نفل نماز (نفلی طواف سے )افضل ہے ، اسی طرح مولانا رحمت اللہ سندھی کی ’’منسک کبیر‘‘ میں ہے اور علامہ نووی نے ’’ایضاح المناسک‘‘ میں فرمایا کہ حضرت ابن عباس، سعید بن جبیر، عطاء، مجاہد رضی اللہ عنہم کا بھی یہی قول ہے اور علامہ ابن جماعہ نے اپنی (کتاب) ’’منسک کبیر‘‘ میں فرمایا کہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور امام احمد علیہ الرحمہ کے نزدیک طواف مطلقاً نفل نماز سے افضل ہے اور یہی قول ہے بعض شوافع کا اور بعض دیگر اس کے برعکس کے قائل ہیں ۔ کیونکہ مسافر کو طواف کرنے کا موقع کچھ عرصہ کے لئے ملا ہے اگر وہ اس میں طواف کو ترجیح نہ دیں گے تو وہ موقع ان سے فوت ہو جائے گا ا س لئے ان کے حق میں نفلی طواف ہی افضل ہے ، چنانچہ علامہ ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی متوفی 597 ھ لکھتے ہیں :
قال : الصلاۃ لأھل مکۃ أفضل إلیّ و للغرباء الطواف، لأن الصلاۃ تشتمل علٰی عبادات لا یشتمل علیہا الطواف، فکانت الصلاۃ أفضل إلاّ أن الغرباء لو اشتغلوا بالصلاۃ لفاتھم الطواف لا إلی خلف، و لا یمکن تدارکہ فکان الاشتغال بہ أولی بخلاف المکی، وأنہ لا یفوتہ الطواف، فکان الاشتغال بالطواف أولٰی (77)
یعنی ، فرمایا : میرے نزدیک اہلِ مکہ کے لئے نفل نماز افضل ہے اور مسافروں کے لئے طواف، کیونکہ نماز ان عبادات پر مشتمل ہے جن پر طواف مشتمل نہیں ، تو نفل نماز افضل ہوئی، مگر مسافر اگر نفل نماز میں مشغول ہو گئے تو اُن سے طواف فوت ہو جائے گااور وہ کسی خلیفہ کی طرف فوت نہ ہوگا(78)اور مسافر کے لئے اس کا تدارک ممکن نہ ہو گا تو مسافر کے حق میں طواف میں مشغول ہونا افضل ہے بخلاف مکی کے کہ اس سے طواف فوت نہیں ہوتا تو اس کا نفل نماز میں مشغول ہونا اَولیٰ ہے ۔ اور دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :
والطواف للغرباء أفضل من الصلاۃ (79)
یعنی، نفلی طواف مسافروں کے لئے نفل نماز سے افضل ہے ۔ امام اہلسنّت امام احمد رضا متوفی 1340ھ لکھتے ہیں : ایّامِ اقامت میں جس قدرہوسکے نرا طواف بے اضطباع ورمل وسعی کرتے رہیں ، باہر والوں کے لئے یہ سب سے بہترعبادت ہے اور ہر سات پھیروں پر مقامِ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام میں دو رکعت پڑھیں ۔ (80) مکی کے حق میں نفل نماز کا افضل ہونا موسمِ حج کے ساتھ مقید ہے ، چنانچہ علامہ علاؤالدین حصکفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :
و ھو أفضل من الصلاۃ نافلۃ للآفاقی و قلبہ للمکّی و فی ’’البحر‘‘ ینبغی تقییدہ بالزمن الموسم و إلا فالطواف أفضل من الصلاۃ مطلقاً (81)
یعنی، اور وہ آفاقی کے لئے نفل نماز سے افضل ہے اور مکی کے لئے اس کا الٹ ہے (یعنی اس کے لئے نفل نماز طواف سے افضل ہے )۔ اور ’’بحرالرائق ‘‘میں ہے کہ اس کو زمانہ حج کے ساتھ مقید کرنا چاہئے ، ورنہ طواف نماز سے مطلقاً افضل ہے ۔ اور اس کے تحت علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :
قولہ : مطلقاً أی للمکّی و الآفاقی فی غیر الموسم (82)
یعنی، صاحبِ بحر کا قول مطلقاً یعنی مکی اور آفاقی کے لئے ایام حج کے علاوہ ایام میں (نفلی طواف، نفل نماز سے افضل ہے )۔ اور موسمِ حج کے علاوہ مکی وغیر مکی دونوں کے حق میں افضل نفلی طواف ہے چنانچہ علامہ علاؤ الدین حصکفی لکھتے ہیں :
و الطواف نفلاً أفضل من صلاۃ النفل فی المسجد الحرام لغیر أھل مکۃ، و المقیمین بہا بعد مضی أیام الموسم (83)
یعنی، غیر مکی کے لے نفلی طواف نفل نماز سے افضل ہے او رمکہ میں رہنے والوں کے لئے ایام حج گزرنے کے بعد نفل نماز سے نفلی طواف افضل ہے ۔ اور علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی متوفی 1088 ھ لکھتے ہیں :
و الإکثار من الطواف وہو أفضل من صلاۃ النفل للآفاقی (84)
یعنی، آفاقی کے لئے کثرت سے طواف کرنا نفلی نماز پڑھنے سے افضل ہے ۔ اس کے تحت علامہ سید احمد بن محمد طحطاوی متوفی 1231ھ لکھتے ہیں :
و عکسہ للمقیم زمن الموسم، و فی غیرہ الأفضل لہ الطواف أیضاً ذکرہ صاحب البحر (85)
یعنی،زمانۂ حج میں مقیم مکہ کے لئے اس کا عکس ہے اور غیر موسمِ حج میں اس کے لئے بھی طواف افضل ہے ،اسے صاحبِ بحر نے ذکر کیا ہے ۔ کیونکہ طواف نماز کو بھی شامل ہے ، چنانچہ علامہ کرمانی حنفی متوفی 597 ھ لکھتے ہیں :
و الثواب و الفضیلۃ التی و ردت فی الطواف أراد بہ الطواف مع الصلاۃ، فإنہ یشتمل جمیعاً (86)
یعنی، ثواب اور فضیلت جو طواف کے بارے میں وارد ہے اس سے مراد طواف مع نماز ہے ، پس وہ سب کو شامل ہے ۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الأربعاء، 29شوال المکرم 1427ھ، 22نوفمبر 2006م (216-F)
حوالہ جات
72۔ منیر العزم الساکن إلی أشرف الأماکن، باب ذکر فضائل الطواف، ص165
73۔ بہار شریعت، حج کابیان، طواف وسعی صفا ومروہ و عمرہ کابیان، ایّام اقامت کے اعمال، 1/1112
74۔ بہار شریعت، حج کابیان، طواف وسعی صفا ومروہ و عمرہ کابیان، ایّام اقامت کے اعمال، 1/1112
75۔ بہار شریعت، حج کابیان، طواف وسعی صفا ومروہ و عمرہ کابیان، ایّام اقامت کے اعمال، 1/1112
76۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیزدھم، در ذکر بعضے مسائل متفرقات، فصل أول، در بیان إقامت نمودن در مکۃ، ص236
77۔ المسالک فی المناسک، القسم الثانی : فی بیان المناسک، فصل بعد فصل : فی شرائط صحۃ الطواف، 1/454
78۔ جیسے نمازِ جمعہ فوت ہوجائے تووہ خلیفہ کی طرف فوت ہوتی ہے یہاں خلیفہ نمازِ ظہر ہے ۔ عیدین کی نمازیں فوت ہوتی ہیں تو وہ کسی خلیفہ کی طرف فوت نہیں ہوتیں ۔
79۔ المسالک فی المناسک، القسم الثانی : فی بیان نسک الحجّ الخ، فصل فی الترتیب، 1/474
80۔ فتاوی رضویہ، کتاب الحج، جنایات، رسالہ انوار البشارۃ فی مسائل الحج والزّیارۃ، فصل سوم طواف وسعی صفا ومروہ کا بیان، 15/744
81۔ الدر المختار، کتاب الحج، فصل فی الإحرام وصفۃ المفرد بالحج، تحت قولہ : وطاف بالبیت نفلا ماشیا، ص161
82۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، مطلب : فی عدم منع المار بین یدی المصلّی عند الکعبۃ، تحت قولہ : مطلقاً، 3/590
83۔ الھدیۃ العلائیۃ،أحکام الحجّ، الطواف حول الکعبۃ، ص201
84۔ مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح، کتاب الحج، ص 266
85۔ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح، کتاب الحجّ، ص731
86۔ المسالک فی المناسک، القسم الثانی : فی بیان المناسک، فصل بعد فصل : فی شرائط صحۃ الطواف، 1/454