دیدار باری تعالی

آخرت میں دیدار باری تعالی کے وقوع کے متعلق عقیدہ

 تمام مومنین کے لیے سر کی آنکھوں سے    آخرت میں دیدار باری تعالی کے وقوع کے متعلق عقیدہ اور اس کے منکر کا حکم 

آخرت میں دیدار باری تعالی کے وقوع کے متعلق نظریہ:

آخرت میں تمام  مومنین کے لئے سر کی آنکھوں سے  دیدار باری تعالی کے وقوع  کے اثبات میں قرآن پاک کی کئی آیات شاہد ہیں (چند آیات اس مضمون میں گزر چکیں) ، اس بارے میں   احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں  ۔ مزید اسی عقیدے پر تمام اہل سنت بلکہ مخالفین سے پہلے پوری امت کا اجماع تھا جس سے مستقلاً علم یقینی کا فائدہ حاصل ہوتا ہے ، لہذا یہ عقیدہ کئی قطعی و یقینی دلائل سے ثابت ہے   ۔

آخرت میں دیدار باری تعالی کے منکر کا حکم:

آخرت میں اہل ایمان کے لئے سر کی آنکھوں سے  دیدار باری تعالی کے وقوع کا انکار کرنے والا گمراہ ہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ  شریعت مطہرہ کے تمام  عقائد و مسائل کا حکم یکساں نہیں ہوتا بلکہ ان   کے ثبوت کے دلائل مختلف ہونے کے باعث ان کے انکار کرنے والے کے احکامات بھی مختلف ہوتے ہیں۔  بعض عقائد  ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں ”ضروریات مذہب اہل سنت“ کا نام دیا جاتا ہے۔   ان کے ثبوت کے لئے قطعی دلائل کی حاجت ہوتی ہے اور ان دلائل میں ایسا کوئی احتمال اور  تاویل بھی نہیں پائی جا تی جس کی بنیاد کسی دلیل پر ہو  لیکن   ان دلائل میں بغیر دلیل کے تاویل کی  گنجائش بہرحال ہوتی ہے۔ اور اس کے منکر کا حکم یہ ہوتا ہے کہ ایسے قطعی دلائل کے انکار کی وجہ سے اسے گمراہ و بد دین تو قرار دیا جائے گا لیکن نفس احتمال ، اگرچہ بلا دلیل ہی ہو ، کی وجہ سے  اسے کافر نہیں کہا جا سکتا۔ اور  ” آخرت میں اہل ایمان کے لئے سر کی آنکھوں سے  دیدار باری تعالی کے وقوع “ کا عقیدہ بھی اصح قول کے مطابق  ”ضروریات مذہب اہل سنت“ کے قبیل سے ہے کہ یہ قرآن پاک کی آیات، احادیث متواترہ، اور اجماع امت جیسے قطعی  دلائل سے ثابت ہے  اور اس میں ایسے کسی احتمال کی گنجائش نہیں ہے  جس کی بنیاد کسی دلیل پر ہو، البتہ نفس احتمال کی گنجائش موجود ہے اس لئے فقہا و متکلمین نے صراحت فرمائی ہے کہ اگر کوئی اس عقیدے کا انکار کرے تو  وہ  گمراہ و بددین اور مذہب اہل سنت سے خارج   ٹھہرے گا، ہاں اس کی  التزاماً تکفیر نہ کی جائے۔    

آخرت میں وقوع دیدار باری تعالی کے دلائل کا قطعی ہونا:

علامہ كمال الدین البياضی الحنفی  رحمہ اللہ (وفات: 1097) اپنی کتاب  اشارات المرام من عبارات الامام ابی حنیفۃ النعمان میں فرماتے ہیں:  ” قال في الوصية والفقه الأكبر: (ولقاء الله تعالى) أي: كونه مرئيا (لأهل الجنة) زيادةٌّ في إكرامهم فيها (حق ) أي: ثابت بالدلائل القطعيات من بينات الآيات، ومشهورات الروايات “ ترجمہ: امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے  اپنی وصیت اور الفقہ الاکبر میں فرمایا: اہل جنت کے لئے ان کے اکرام میں زیادتی کے لئے  اللہ تعالی سے ملاقات یعنی جاگتی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدار حق ہے یعنی واضح آیات اور مشہور روایات کے قطعی دلائل کے ذریعے ثابت ہے۔([1])

احادیث کا حد تواتر تک ہونا:

تفسیر البحر المحیط میں امام  ابو حیان اندلسی رحمہ اللہ (وفات: 745ھ) لکھتے ہیں: ” والرؤية في الآخرة ثابتة عن الرسول صلى الله عليه وسلم بالتواتر“ ترجمہ: آخرت میں دیدار باری تعالی   کا وقوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے تواتر سے ثابت ہے۔ ([2])        

عمدۃ المرید میں امام برھان الدین اللقانی  (وفات:  1041) رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”و اما السنۃ فاحادیث بلغ معناھا مبلغ التواتر، و ان کانت تفاصیلھا احاد۔۔ ولا شک فی افادۃ الخبر ھذا المجموع القطع المعنوی“ ترجمہ: اور آخرت میں رؤیت باری تعالی کے متعلق احادیث معنیً تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں،  اگرچہ ان کی تفاصیل احاد ہیں اور بلا شبہ مجموعی طور پر یہ احادیث معناً قطعیت کا فائدہ دیتی ہیں۔([3])

آخرت میں وقوع  دیدار باری تعالی پر اجماع امت:

المواقف مع  الشرح لقاضی عضد الدین الایجی  اور شرح مقاصد المقاصد لشمس الدین  الدلجی (وفات: 947ھ) میں ہے: واللفظ للاخر   ” واما وقوعھا  ای الرویۃ المؤمنین  فی الدار الاخرۃ فاجماعا ای فباجماع الامۃ علیہ قبل وجود المخالف  و کون ما ورد فیھا علی ظاھرہ و مثل ھذا الاجماع یفید الیقین “ ترجمہ: آخرت میں مومنین کے لئے دیدار باری تعالی کے وقوع پر مخالفین کے وجود سے پہلے تمام امت کا اتفاق و اجماع تھا اور اس کے متعلق نصوص ظاہر  پر ہی محمول تھیں  اور ایسا اجماع علم یقینی کا فائدہ دیتا ہے ۔([4])

ضروریات اہل سنت کا حکم:

فتاوی رضویہ  میں ہے :” مانی ہوئی باتیں چار (4) قسم ہوتی ہیں:(1)ضروریات دین: ان کا ثبوت قرآن عظیم یا حدیث متواتر یا اجماع  قطعیات الدلالات واضحۃ الافادات سے ہوتا ہے جن میں نہ شبہے کی گنجائش نہ تاویل کو راہ۔۔۔(2)ضروریات مذہب اہلسنت: ان کا ثبوت بھی دلیل قطعی سے ہوتا ہے۔ مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں ایک نوعِ شبہہ اور تاویل کا احتمال ہوتا ہے۔  اسی لیے ان کا منکر کافر نہیں بلکہ گمراہ ، بد مذہب ، بددین کہلاتا ہے۔ “         ([5])

اسی میں ہے: ” علم قطعی دو معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔ احدھما:  قطع الاحتمال علی وجہ الاستیصال بحیث لایبقی منہ خبر ولا اثروھذاھو الاخص الاعلٰی کما فی المحکم والمتواتر وھو المطلوب فی اصول الدین فلا یکتفی فیہا بالنص المشہور ۔ والثانی : ان لایکون ھناک احتمال ناش من دلیل وان کان نفس الاحتمال باقیاً  کالتجوز و التخصیص وسائر انحاء التاویل کما فی الظواھر والنصوص والاحادیث المشہورۃ والاول یسمی علم الیقین و مخالفہ کافر علی الاختلاف فی الاطلاق کما ھو مذہب فقہاء الاٰفاق ، والتخصیص بضروریات الدین ما ھو مشرب العلماء المتکلمین ۔ و الثانی علم الطمانیۃ ومخالفہ مبتدع ضال ولا مجال الی اکفارہ کمسئلۃ وزن الاعمال یوم القیمۃ  ۔  و مسئلۃ رؤیۃ الوجہ الکریم للمؤمنین۔ رزقنا المولٰی بفضلہ العمیم ۔ قال تعالٰی ”وجوہ یومئذ ناضرۃ الٰی ربہا ناظرۃ "  ویحتمل احتمالاً کذلک ارادۃ الامل و والرجاء وھو ایضاً مما توافقت علیہ العرب والعجم فکل ذل ثابت بنصوص قواطع بالمعنی الثانی۔ ولذا لا نقول باکفار المعتزلۃ والروافض اولین الماؤلین “ ملخصاً   ترجمہ: ایک تو یہ کہ احتمال جڑ سے منقطع ہو جائے بایں طور کہ اس کی کوئی خبر یا اس کا کوئی اثر باقی نہ رہے۔ اور یہ اخص اعلٰی ہے جیسا کہ محکم اور متواتر میں ہوتا ہے۔ اور اصولِ دین میں یہی مطلوب ہے۔ تو اس میں نصِ مشہور پر کفایت نہیں ہوتی۔  دوسرا : یہ کہ اس جگہ ایسا احتمال نہ ہو جو دلیل سے ناشی ہو اگرچہ نفس احتمال باقی ہو۔ جیسے کہ مجاز اور تخصیص  اور باقی وجوہِ تاویل ، جیسا کہ ظواہر اور نصوص اور احادیث مشہورہ میں ہے۔ اور پہلی قسم کا نام علم یقین ہے اور اس کا مخالف کافر ہے علماء میں اختلاف کے بموجب مطلقاً ۔ جیسا کہ فقہائے آفاق کا مذہب ہے یا ضروریات دین کی قید کے ساتھ یہ حکم مخصوص ہے جیسا کہ علمائے متکلمین کا مشرب ہے اور دوسرے کا نام علم طمانیت ہے اور اس کا مخالف بدعتی و گمراہ ہے اور اس کو کافر کہنے کی مجال نہیں۔ جیسے کہ قیامت کے دن اعمال کو تولنے کا مسئلہ ۔ اور مومنین کے لیے اللہ تبارک و تعالٰی کے دیدار کا مسئلہ، مولائے کریم اپنے فضل عظیم سے نصیب فرمائے، اللہ تعالٰی نے فرمایا : ” کچھ منہ اس دن ترو تازہ ہوں گے اپنے رب کو دیکھتے“ احتمال رکھتا ہے اسی طرح اُمید ورجاء کے ارادے کا۔ اور یہ بھی ان باتوں میں سے ہے جن پر اب عرب و عجم سب متفق ہیں ۔ یہ تمام باتیں دوسرے معنی پر نصوصِ قطعی سے ثابت ہیں۔ اور اسی لیے ہم تاویل کرنے کے سبب  معتزلہ اور اگلے روافض کی تکفیر نہیں کرتے ۔(ت) “([6])

آخرت میں دیدار باری تعالی کے منکر کی عدم تکفیرکی صراحت:

کنز الفوائد شرح بحر العقائد میں ابراہيم بن حسن ميرغنی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ”اختلف فی تکفیر  من انکر  الرؤیۃ فی الاخرۃ  و شک فیھا  والحق عدمہ عندنا  و عند غیرنا  کما جزم بہ القاضی عیاض  و نقلہ عن القاضی ابی بکر“ ترجمہ: آخرت میں اللہ تعالی کی رؤیت کا انکار کرنے والے یا اس میں شک کرنے والے  کی تکفیر میں اختلاف ہے اور درست یہ ہے کہ ہمارے اور مخالفین دونوں کے نزدیک اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی   جیسا کہ قاضی عیاض رحمہ اللہ  نے اس پر جزم فرمایا اور قاضی ابوبکر رحمہ اللہ سے اسے نقل فرمایا۔([7])

 کتاب التفرقۃ میں امام الغزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”نفی المعتزلۃ الرؤیۃ عن الباری سبحانہ و تعالی بدعۃ و لیس بکفر“ ترجمہ:  معتزلہ کا رؤیت باری تعالی کی نفی کرنا بدعت ہے ،  کفر نہیں ہے۔([8])

حوالہ جات: 

[1]…۔ اشارات المرام من عبارات الامام ابی حنیفۃ النعمان ، صفحہ 171، دار الکتب العلمیہ، بیروت

[2]…۔ تفسیر البحر المحیط، جلد3، صفحہ 402، دار الکتب العلمیہ، بیروت

[3]…۔ عمدۃ المرید ، جلد2،  صفحہ 755، دار النور، عمان

[4]…۔ شرح مقاصد المقاصد لشمس الدین الدلجی، صفحہ 152، مخطوط

[5]…۔ فتاوی رضویہ،جلد29،صفحہ385، رضا فاؤنڈیشن، لاہور

[6]…۔ فتاوی رضویہ، جلد28،صفحہ 667-668، رضا فاونڈیشن، لاہور

[7]…۔ کنز الفوائد شرح بحر العقائد،  صفحہ 70، مخطوط

[8]…۔ کتاب التفرقہ، صفحہ 64،  مطبوعہ دمشق

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button