استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ لوگ کفن کے کپڑے کو آبِ زم زم میں بھگونے کے لئے لاتے ہیں ان کی نیت تبرک حاصل کرنا ہوتی ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صرف چھینٹے مارنا کافی ہے پورا بھگونا نہیں چاہئے کہ اس میں آبِ زم زم کا ضائع کرنا ہے اور استعمال کے بعد اس کو کسی جگہ ڈالنا بے ادبی ہے ، شرعاً اس کا کیا حکم ہے ؟
(السائل : نور بیگ، از لبیک حج گروپ، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : فقہاء کرام نے آبِ زم زم کو ازالۂ نجاست کے لئے استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے نجاست چاہے حقیقی ہو یا حکمی جیسے جنابت سے غسل یا وضو چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی1174ھ لکھتے ہیں :
باک نیست در اغتسال و وضو بہ آبِ زم زم، و قیل مکروہ است اغتسال بوی نہ وضو، و باید کہ استعمال نکند آب مذکور را مگر بر بدن طاہر بطریق تجدید وضو و مانند آن و اما ازالۂ نجاست چنانکہ استنجاء و مانند آن پس حرام است نزد بعضے و مکروہ است نزد بعضے دیگر، و گویند کہ استنجا کرد کسی بآب زمزم پس حادث گشت بوی باسور (265)
یعنی، آبِ زمزم سے غسل اور وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اور کہا گیا کہ اس سے غسل کرنا مکروہ ہے نہ کہ وضو، مگر یہی چاہئے کہ آبِ زم زم کو ناپاک بدن پر استعمال نہ کرے ، پہلے سے وضو ہو تو تجدیدِ وضو آبِ زمزم سے کر لے اور اس کی مانند، مگر آبِ زمزم سے نجاست کو دُورکرنا جیسا کہ استنجاء کرنا اور اس کی مثل اور کوئی کام کرنا تو وہ بعض کے نزدیک حرام ہے او ربعض دیگر کے نزدیک مکروہ ہے ۔ او رکہتے ہیں کہ کسی شخض نے آبِ زم زم کے ساتھ استنجاء کر لیا تھا تو اسے بواسیر کا مرض ہو گیا۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ وضو ہو تو اسے بطور تجدیدِ وضو استعمال کرنا اسی طرح غسل ہو تو اسے بطور تجدیدِ غسل استعمال کرنا جائز ہے جو کہ درحقیقت وضو اور غسل نہیں بلکہ آبِ زم زم سے برکت لینا ہے یعنی برکت کے لئے اور شفاء حاصل کرنے کے لئے سر پر ڈالنا یا سینے پر ڈالنا اسی طرح پورے بدن پر ڈالنا جائز ہے کہ آبِ زمزم بیماریوں سے شفاء ہے چنانچہ طبرانی کی حدیث ہے کہ
’’ زَمْزَمُ…. شِفَائُ سَقَمٍ‘‘ (266)
یعنی، زمزم بیماری سے شفاء ہے ۔ اسی طرح کپڑا اگر پاک ہے تو اسے آبِ زم زم میں بھگو لینا بھی جائز ہے یہ بھی دھونا نہیں بلکہ برکت حاصل کرنا ہے کہ آبِ زم زم خود برکت والا پانی ہے پھر اسی پانی کو نبی ا کے قلبِ اطہر کے غسل کا شرف حاصل ہے جیسے ایامِ رضاعت میں جیسا کہ ’’صحیح مسلم‘‘ کے کتاب الایمان (برقم : 261) میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں مذکور ہے ، دوسری بار بعثت کے وقت اور شب معراج جیسا کہ ’’صحیح بخاری‘‘ کے کتاب الصلاۃ (باب کیف فرضت الصلوات الخ) میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے اور کتاب بدء الخلق (باب ذکر الملائکۃ) میں حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں مذکور ہے ۔اور اسی پانی سے بھرے ہوئے ایک ڈول سے نبی ا نے کچھ پانی اپنے دہن مبارک میں لیا اور پھر آپ نے اُسے ڈول میں دوبارہ ڈال دیا اور ڈول کے پانی کو آبِ زم زم کے کنوئیں میں ڈال دیا گیا جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور ا زم زم پر تشریف لائے ہم نے آپ کے لئے ایک ڈول بھرا تو آپ نے اس سے نوش فرمایا پھر اس میں کلی فرمائی تو ہم نے اُسے (یعنی کلی والا وہ مبارک پانی) زم زم (کے کنوئیں ) میں گرا دیا۔ اور یہ حدیث ’’مسند احمد (1/372)‘‘ ’’اخبار مکہ للفاکہی‘‘ (2/55) اور المعجم الکبیر للطبرانی ‘‘ (11/97) میں مذکور ہے ۔ اور کفن بھگونے سے غرض بھی یہی ہوتی ہے کہ یہ کفن متبرک ہو جائے ، باقی رہا بھگونے کے بعد پانی تو اُسے کسی ناپاک جگہ نہ ڈالا جائے بلکہ کسی پاک جگہ ڈال دیا جائے یا دھوپ میں رکھ کر خشک ہونے دیا جائے اور یہ تصوّر کہ آبِ زم زم ضائع ہوتا ہے تو یہ تصوّر درست نہیں کہ برکت حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا گیا آبِ زم زم ضائع نہیں کہلاتا اور تبرکات کو کفن میں شامل کرنے کے بارے میں اہلسنّت کا وہی مؤقف ہے جو رسول اللہ ا کے مبارک عمل سے کہ آپ نے کفن کے لئے اپنا قمیص عنایت فرمایا اور جو صحابہ کرام علیہم الرضوان کے فعل سے ثابت ہے کہ حضور اکے استعمال کردہ چادر میں دفن ہونے اور آپ اکے موئے مبارک اور ناخن مبارک کو کفن کے ساتھ رکھے جانے کی خواہش رکھتے تھے ، اس طرح کے شواہد کُتُبِ احادیث میں بکثرت موجود ہیں ، باقی رہا یہ سوچنا کہ پانی کم ہو جائے گا یا دوسروں کو نہیں ملے گا یہ سوچ بھی غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے جب آنے او رلے جانے والے کم تھے تو اتنی مقدار میں آبِ زم زم نکلتا رہا کہ ان کی ضرورت پوری ہوتی رہی ، پھر جیسے جیسے ضرورت بڑھتی گئی اس کی مقدار بھی بڑھتی گئی، آج صرف حج میں لوگوں کی تعداد 25 سے 35 لاکھ ہوتی ہے اور کبھی اس سے بھی تجاوز کر جاتی ہے ، سب کے سب پیتے ہیں ساتھ لے جاتے ہیں ، اس طرح مسجد نبوی شریف کے لئے بھی مستقل سپلائی ہوتا ہے اور وہاں سے بھی لوگ اپنے گھروں اور وطن لے جانے کے لئے بھرتے ہیں اور معتمرین کی تعداد سالانہ کتنی ہو گی ، کبھی آب ِزم زم میں کمی آئی، ہرگز نہیں ۔ اور نہ ہی کبھی آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الخمیس، 15ذوالحجۃ 1427ھ، 4ینایر 2007 م (346-F)
حوالہ جات
265۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم، فصل سیوم، مسئلہ در ذکر چاہ زمزم الخ، ص139
266۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم، فصل سیوم، مسئلہ در ذکر چاہ زم زم…إلخ، ص138