ARTICLESشرعی سوالات

آبِ زم زم سے وضو و غسل کا حکم

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ مسجد الحرام میں بیٹھے رہنے سے وضو ٹوٹ جائے تو اٹھتے ہیں اور آب زم زم سے وضو کر کے پھر بیٹھ جاتے ہیں ، بعض مسجد کے خدام کو بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو بجائے روکنے کے خود آبِ زم زم سے وضو کرنے کا کہتے ہیں ، شرع مطہرہ میں آبِ زم زم سے وضو اور غسل کا کیا حکم ہے ؟

(السائل : حافظ بلال قادری، مکہ مکرمہ)

متعلقہ مضامین

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : آب زم زم کو حقیقی یا حکمی ہر قسم کی نجاست کے ازالہ کے لئے استعمال کرنا درست نہیں ، محقق علی الاطلاق امام ابن ہمام کے شاگرد (کما فی منحۃ الخالق) علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :

و لا یستعمل إلا علی شیٍٔ طاہرٍ و یکرہ الاستنجاء بہ

یعنی، آبِ زم زم کو نہ استعمال کیا جائے مگر پاک چیز پر اور اس سے استنجاء کرنا مکروہ ہے ۔ اس کے تحت شارح ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

فلا ینبغی أن یغسل بہ ثوب نجس، و لا أن یغتسل بہ جنب و لا محدث، و لا فی مکان نجس … و کذاإزالۃ النجاسۃ الحقیقۃ من ثوبہ أو بدنہ حتی ذکر بعض العلماء تحریم ذالک، و یقال : إنہ استنجی بہ بعض الناس فحدث بہ الباسور (257)

یعنی، تو اس سے نجس (ناپاک) کپڑے کو نہیں دھونا چاہئے اور نہ اس سے جُنُبی غسل کرے (یعنی وہ شخص کہ جس پر غسل واجب ہو گیا ہو) اور نہ بے وضو (اس سے وضو کرے ) اور نہ نجس جگہ (اسے استعمال کرے یا ڈالے ) … (جس طرح سے استنجاء مکروہ ہے ) اسی طرح اس سے نجاست حقیقی کو اپنے کپڑے یا بدن سے زائل کرنا (مکروہ ہے ) یہاں تک کہ بعض علماء نے اس کا حرام ہونا ذکر کیا ہے ، اور کہا گیا کہ کسی نے اس سے استنجاء کر لیا تو اُسے بواسیر کا مرض ہو گیا۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :

و اما ازالۂ نجاست چنانکہ استنجاء و مانند آن حرام است نزد بعضے و مکروہ است نزد بعضے دیگر، و گویند کہ استنجاء کردہ کسی بآب زم زم میں حادث گشت بوی باسور (258)

یعنی، مگر آبِ زم زم سے نجاست دُور کرنا جیسے استنجاء اور اس کی مثل اور کام (میں اس کا استعمال) وہ حرام ہے بعض کے نزدیک اور دوسروں کے نزدیک مکروہ ہے ۔ اور کہتے ہیں کسی شخض نے آبِ زم زم کے ساتھ استنجاء کر لیا تھا تو اسے بواسیر کا مرض ہو گیا۔ اور علامہ تقی الدین محمد بن احمد بن علی الفاسی المکی المالکی متوفی 832ھ نے اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال بیان کئے ہیں کہ مارودی کی ’’حاوی‘‘ میں جو ہے اس کی بنا پر بالاجماع اس سے تطہیر جائز ہے اور امام نووی نے ’’شرح المہذب‘‘ میں لکھا کہ آب زم زم سے نجاست زائل کرنے سے بچنا چاہئے خصوصاً نجاست کے وجود کو دور کرنے سے اور خصوصاً اس سے استنجاء کرنے سے ۔ اور محب طبری نے اس سے نجاست کے زائل کرنے کے حرام ہونے پر جزم کیا اگرچہ اس صورت میں تطہیر حاصل ہو جائے گی۔ اصحاب مالکیہ میں سے ابن شعبان سے آب زم زم سے تطہیر کی ممانعت منقول ہے ۔ مالکیہ میں سے ابن حبیب نے جو ذکر کیا اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے وضو مستحب ہے ۔ امام شافعی کا مذہب ہے کہ اس سے وضو اور غسل مستحب ہے ، امام احمد نے ایک روایت میں اسے مکروہ قرار دیا۔ اور فاکہی نے ذکر کیا کہ اہل مکہ اپنی میتوں کے غسل سے فارغ ہو چکے ہوتے تو تبرکاً انہیں آبِ زم زم سے غسل دیتے اور ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے اپنے فرزند عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو آبِ زم زم سے غسل دیا۔ (259) برکت حاصل کرنے کے لئے آبِ زم زم کا استعمال بالاتفاق جائز ہے اور صحابہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اور اہلِ مکہ کے عمل سے بھی یہی ثابت ہے اور علماء کرام نے بھی اس کی تصریح کی ہے کہ برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا استعمال جائز ہے ، چنانچہ صاحب فتح القدیر امام ابن ہمام کے شاگرد علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :

و یجوز الإغتسال التوضؤ بماء زمزم علی وجہ التبرک

یعنی، برکت حاصل کرنے کے لئے آبِ زم زم سے غسل اور وضو جائز ہے ۔ اس کے تحت شارح ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

أی لا بأس بما ذکر إلا أنہ ینبغی أن یستعملہ علی قصد التبرک بالمسح أو الغسل أو التجدید فی الوضوء (260)

یعنی، (علامہ رحمت اللہ سندھی نے ) جو ذکر کیا (کہ آبِ زم زم سے غسل اور وضو برکت لینے کے لئے جائز ہے ) اس میں کوئی حرج نہیں مگر اُسے چاہئے کہ برکت حاصل کرنے کے ارادے سے مسح یا غسل یا تجدید وضو کے طور پر استعمال کرے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :

باک نیست در اغتسال و وضوبہ آب زم زم و قیل مکروہ است اغتسال بوی نہ وضو و باید کہ استعمال نکند آب مذکور را مگر بر بدن طاہر بطریق تجدید وضو و مانند آن (261)

یعنی، آبِ زم زم سے غسل اور وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں اور کہا گیا کہ اس سے غسل کرنا مکروہ ہے نہ کہ وضو، مگر یہ چاہئے کہ آب زم زم کو ناپاک بدن پر استعمال نہ کرے ۔ بہر حال اس مسئلہ میں علماء اسلام کے اقوال مختلف ہیں صحیح یہی ہے کہ ازالۂ نجاست کے لئے اور رفعِ حَدَث کے لئے اس کو استعمال نہ کیا جائے ۔ یعنی، جنبی اس سے غسل نہ کرے اور بے وضو اس سے وضو نہ کرے اور اسے استنجاء کے لئے استعمال نہ کیا جائے اس سے ناپاک کپڑے نہ دھوئے جائیں کہ یہ برکت والا پانی ہے چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی لکھتے ہیں :

وارد شدہ است در حق زمزم کہ ہی مبارکۃ (262)

یعنی،آبِ زم زم کے حق میں وارد ہے کہ یہ برکت والا ہے ۔ اور یہ رُوئے زمین کے پانیوں سے بہتر پانی ہے چنانچہ حدیث شریف ہے :

و عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما قال : قال رسول اللہ ﷺ : ’’خَیْرُ مَائٍ عَلٰی وَجْہِ مَائُ زَمْزَمَ ‘‘ الخ راوہ الطبرانی فی ’’الکبیر‘‘ و رواتہ ثقات و رواہ ابن حبان أیضاً (263)

یعنی، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے فرمایا : ’’روئے زمین پر بہتر پانی آبِ زم زم ہے ‘‘ الخ اسے امام طبرانی نے ’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے اور اس روایت کے راوی ثقات ہیں اور اسے امام ابن حبان نے بھی روایت کیا ہے ۔ اور یہی وہ پانی ہے جسے ثواب کی نیت سے دیکھنا عبادت ہے جیسا کہ ’’لباب المناسک‘‘، ’’وشرحہ المسلک المتقسط‘‘ (ص699) میں ہے اور ’’حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب‘‘ (ص139) میں ہے کہ

النظر إلی زمزم عبادۃ۔ رواہ الفاکہی بسندہ عن النبی ﷺ

یعنی، زم زم (کے کنوئیں ) میں دیکھنا عبادت ہے ۔ اسے علامہ فاکہی نے اپنی سند کے ساتھ رسول اللہ اسے روایت کیا ہے ۔ اور یہی وہ مبارک پانی ہے کہ جسے نبی ا کے قلبِ اطہر کے غسل کا شرف حاصل ہوا، اور اس کی روایات حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ’’صحیح البخاری‘‘ کے کتاب الصلوٰۃ (باب کیف فرضت الصلوات فی الإسراء) میں اور حضرت مالک بن صعصہ رضی اللہ عنہ سے ’’صحیح البخاری‘‘ کے کتاب بدء الخلق (باب ذکر الملائکۃ) میں مروی ہے ۔ اور یہی وہ پانی ہے کہ جس کے کنوئیں میں نبی ا کا دہن مبارک میں لے کر نکالا ہوا پانی ڈالا گیا اور اس کی روایت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ’’مسند اما م احمد‘‘ (1/372، برقم : 3527) اور ’’اخبار مکۃ للفاکہی‘‘ (2/55) میں اور ’’المعجم الکبیر‘‘ للطبرانی (11/97) میں مروی ہے ، اسی طرح ’’البدایۃ و النہایۃ‘‘ (264) میں ہے ۔ ایسے بابرکت اور اتنی فضیلتوں کے حامل پانی کو ناپاکی میں استعمال کرنا اور پاکی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنا درست نہیں ، لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے اور اس سے برکت حاصل کرنا بالکل جائز بلکہ مستحسن ہے ۔ اور سوال میں مذکور لوگ بے وضو ہونے کی صورت میں آبِ زم زم سے وضو کرتے ہیں اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ اس سے وضو نہ کریں اور خادم کو بھی چاہئے کہ انہیں ا س سے منع کریں ۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم، ذوالحجۃ 1427ھ، دیسمبر 2006 م (324-F)

حوالہ جات

257۔ المسلک المتقسّط إلی المنسک المتوسط، باب المتفرقات، فصل فی أحکام ماء زمزم، ص499

258۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم، فصل سیوم، مسئلہ در ذکر چاہ زم زم إلخ، ص138

259۔ شفاء الغرام بأخبار بلد الحرام، ذکر حکمۃ التطہیر بماء زم زم، 1/342

260۔ المسلک المتقسّط إلی المنسک المتوسط، باب المترفات، فصل : و یستحب الإکثار من شرب ماء زمزم، ص699

261۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم، فصل سیوم، مسئلہ در ذکر چاہ زم زم إلخ، ص139

262۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم، فصل سیوم، مسئلہ در ذکر چاہ زم زم…إلخ، ص138

263۔ إرشاد الساری إلی مناسک الملاّ علی القاری، باب المترفات، فصل : ویستحب الاکثار من شرف ماء زمزم، ص696

264۔ البدایۃ و النہایۃ، باب دخول النبی ﷺ إلی مکۃ، فصل إحلالہ ﷺ إلخ، ذکر إفاضتۃ علیہ السلام إلی البیت العتیق، 4/145

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button